چند سال پیشتر ایک ویڈیو دیکھی ، ایک چاک و چوبند نوجوان بڑے سادہ اور ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کی کسی حقیقت کی پرتیں کھول رہا تھا اور سامنے بیٹھے ہوئے طالب علم سکول کالج کے نوجوان نہیں بلکہ کوئی پروفیشنلز دکھائی دیتے تھے جو بڑی توجہ سے اسے سن رہے تھے یہ قاسم علی شاہ سے میرا پہلا تعارف تھا۔ سیلف ہیلپ کا مواد ہمیشہ میرے لیے باعث کشش رہا ہے ۔ گذشتہ 15 سالوں سے میں برائن ٹریسی کی سبسکرائبر ہوں، روبن شرما, ایک ہارٹ ٹول،ٹونی روبنز سمیت دنیا کے نامور مائنڈ سیٹ ٹرینرز کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس دیسی موٹی ویشنل سپیکر کا انداز بہت سادہ اور دل میں اتر جانے والا لگا۔ پھر قاسم علی شاہ کی ویڈیوز سے بات قاسم علی شاہ فاونڈیشن تک چلی گئی جو کئی نوع کی مثبت سرگرمیوں کا ایک پرکشش ادارہ بن گیا جہاں چودہ ایسی سکلز سکھائی جاتی ہیں جو انسان کی سیلف گروتھ میں ایم کردار ادا کرتی ہیں۔مجھے خود دو تین دفعہ یہاں بطور مہمان جانے کا اتفاق ہوا۔ اس فاؤنڈیشن سے تعلیم اور تربیت کے بہت سارے منفرد پراجیکٹ ہونے لگے دیکھتے ہی دیکھتے قاسم علی شاہ ملک بھر کا جانا پہچانا نام بن گیا۔فاؤنڈیشن میں ہونے والی کلاسز میں کبھی ہمیں خواتین نظر آتیں ، کبھی مختلف اداروں سے وابستہ پروفیشنل نظر آتے ہیں ،کبھی بیوروکریٹس کی کلاس ہورہی ہوتیں، کبھی کارپوریٹ سیکٹر کے سوٹڈ بوٹڈ پروفیشنل اس کی باتوں پر سر دھن رہے ہوتے۔میں نے ہائر کا لفظ اس لیے لکھا ہے کہ قاسم علی شاہ اس کام کے اچھے خاصے پیسے وصول کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے مغرب امریکہ برطانیہ میں مائنڈ سیٹ ٹریننر اور موٹی ویشنل سیشن کی بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔یوں قاسم علی شاہ نے پاکستان میں پہلی بار ٹریننگ انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ دوسری جنگ عظیم کی لائی تباہی کے بعدمختلف ادارے اپنے ایمپلائز کی پروفیشنل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور مائنڈ سیٹ کی تربیت پر بھی زور دینے لگے۔یہ احساس زور پکڑ رہا تھا کہ انسان کی اصل طاقت اس کا ذہن اور اس کی سوچ کی سمت ہے مغرب میں اب یہ انڈسٹری بہت طاقتور ہو چکی ہے۔ پہلے لوگ فلم سٹاروں ،اداکاروں اور کھلاڑیوں کے آٹوگراف لیتے تھے ،ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانا پسند کرتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے قاسم علی شاہ ایک سیلیرٹی بن گیا۔ پہلے لوگ شاعروں کو سننے کے لیے مجمع لگاتے تھے اب وہ قاسم علی شاہ کو سننا چاہتے تھے۔ فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سیکڑوں قابل مگر کم وسیلہ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی پروفیشنل ٹریننگ بھی ہو رہی ہے اس طرح کے کئی بڑے پراجیکٹس ہیں جس میں مخیر حضرات کے تعاون سے نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست کیا جاتا ہے اور پیسے ڈائریکٹ طالب علموں کے اکاؤنٹ میں ڈالے جاتے ہیں۔ واصف علی واصف کے شاگرد ہونے کے ناطے قاسم شاہ زندگی اور زندگی سے جڑے مسائل پر جو بھی بات کرتا ہے وہ دین کے دائرے سے باہر نہیں جاتی۔میں خود قاسم علی شاہ کو سنتی ہوں،اس کی بات میں اللہ نے تاثیر رکھی ہے۔ گھر کے گیراج میں کھولے جانے والے ٹیوشن سنٹر سے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کا حیرت انگیز سفر طے کرنے والے قاسم علی شاہ کی زندگی کامیابی کی ایک مثالی کہانی ہے۔قاسم علی شاہ پر سوشل میڈیا پر ہونے والی حالیہ ٹرولنگ سے دل بہت دکھی ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے وہ ایک استاد ہے ٹرینر ہے۔ اس ملک کے کم وسیلہ نوجوان کے لیے کام کر رہا ہے۔سب سے بڑھ کر سماج کی ذہنی تربیت کے لئے کام کر رہا ہے۔صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جائے کہ آپ اس کی کامیابی کو ہضم نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کے لوگوں نے جس طرح قاسم علی شاہ کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی وہ کلٹ سیاسی کلچر کی بدترین مثال ہے۔ دو تین روز پہلے میری قاسم علی شاہ سے اس موضوع پر تفصیلی بات ہوئی ۔میں نے انہیں بالکل بھی پریشان نہیں دیکھا۔ میں نے کچھ سخت سوالات بھی کیے جسکا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سیاسی ملاقاتوں کی پوسٹیں آپ کو نہیں لگانی چاہیں تھیں؟ یا اپنی ہر نئی سرگرمی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا ضروری تو نہیں؟ شاہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میں مانتا ہوں۔ میں نے پوچھا آج کل آپ کی پوسٹ پر لوگوں کے بہت خوفناک کمنٹ ہوتے ہیں کیا آپ پڑھتے ہیں؟ " میں ہر کمنٹ پڑھتا ہوں اور گالیاں دینے والے کو میں بلاک نہیں کرتا۔ میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے انسپریشن لے کر انہیں معاف کر دیتا ہوں "اس سارے ہنگامے کے باوجود قاسم علی شاہ پنجاب حکومت کی طرف سے پنجاب کی تمام ڈسٹرکٹ میں پروفیشنلز کی ٹریننگ کے لیے جا رہے ہیں۔ اس روز بھی شاہ صاحب اوکاڑہ کے سفر میں تھے جب مجھ سے بات ہوئی۔ توانائی اور جذبے میں کہیں کوئی کمی نہیں تھی۔ میری ذاتی رائے میں اس وقت وہ استاد اور ٹرینر ہونے کے جس مقام پر ہیں وہاں کسی سیاسی جماعت سے جڑنا انہیں متنازعہ بنا کر ان کی کہی ہوئی بات کے دائرہ اثر کو سکیڑ کے رکھ دے گا۔ سیاسی پولرائزیشن ،معاشی گراوٹ اور اخلاقی زوال کے اس دور میں قاسم علی شاہ کی صورت ایک ایسے استاد اور ٹرینر کا وجود غنیمت ہے جو نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، زندگی کو نظم و ضبط میں ڈھالنے ، اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے گر سکھا رہا ہے۔قاسم علی شاہ کو میں منفی معنوں میں ambitious نہیں کہنا چاہتی۔ مگر یہ سچ ہے وہ ابھی کامیابی کے کئی اور افق فتح کرنے کا خواہشمند ہے ۔ جذبے سے بھرا ہوا انتہائی مثبت سوچ کا حامل استاد جو اپنے حلقہ اثر میں آنے والوں کے لیے واقعی ایک گیم چینجر ثابت ہوتا ہے۔ آخری بات یہ کہ خدا کے لیے سیاست سے دور رہیں ہم ایسا استاد کھونا نہیں چاہتے۔