مدت ہوئی سندھ حکومت کوپولیس کا کوئی آئی جی راس ہی نہیں آرہا۔ اے ڈی خواجہ جب تک رہے ان کی سندھ حکومت سے ٹھنی رہی اور اپنی پوری مدت ملازمت میں حکم امتناعی پر سندھ پولیس کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی رخصتی کے بعد اب جب سے ڈاکٹر سید کلیم امام نے سندھ پولیس کی سربراہی سنبھالی ہے تو اے ڈی خواجہ کادور سندھ میں لوٹ آیا ہے۔ سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے دور میں بھی تقسیم تھی جس کا بالواسطہ فائدہ جرائم پیشہ عناصر نے اٹھایااور شہرقائد میں وارداتیں بڑھتی چلی گئیں اور آج بھی پولیس کی باہمی گروہ بندی نے عوام کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اس بار سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کی مخاصمت میں ڈاکٹر سید کلیم امام کے شانے پر عدالت کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ انہیں وفاق اور سندھ میں وفاق کے نمائندے گورنر سندھ کی تائیدونصرت حاصل ہے ۔ وفاقی حکومت کی پشت پناہی کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ گزشتہ دنوں آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام کو اسلام آبادبعد طلب کر کے وزیراعظم عمران خان کے حضور پیش کیا گیا ۔ اس ملاقات کی اندرونی کہانی اندر ہی رہ گئی لیکن سندھ حکومت نے اس طرزعمل کا شائستگی کے ساتھ شکوہ کیا جب چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے وفاقی حکومت کو خط لکھا کہ سندھ سے افسران کی طلبی سے کاروبارِ حکومت متاثر ہوتا ہے اور سندھ حکومت کی کفایت شعاری کی مہم کو بھی دھچکا پہنچتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سندھ میں کفایت شعاری کی یہ مہم کہاں اور کس طرح چلائی جارہی ہے اس کا کھوج لگانا ہو گا تاکہ ڈینگی ،پولیو اور بائولے کتوں کے شکار عام آدمی کو جلددن بدلنے کی نوید سنائی جا سکے۔آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام کی اسلام آباد یاترا پر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور ’’صوبائی پبلک سیفٹی اینڈ کمپلینٹ کمیشن‘‘ کے اجلاس میں آئی جی سندھ کے خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی جو اگلے روز واپس لے لی گئی۔پولیس کی اٹھا پٹخ کا حال تو پنجاب میں بھی یہی ہے کہ جب سے عمران خان کے ہاٹ فیورٹ سردار عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے اب تک وہاں پانچ آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں اور کسی ایک افسر کو بھی ٹک کر بیٹھنے اور کھل کرکام کرنے کا موقع نہیں ملا۔تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں سیاسی مداخلت سے پاک پولیس موزوں لگتی ہے لیکن پنجاب اور سندھ میں آزاد اور خود مختار پولیس اس کے مفاد میں نہیں۔ غالباً بہت سارے اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے باوجود پولیس سیاسی اثرورسوخ کے شکنجے سے نہیں نکل سکی ۔ کل تک آئی جی پنجاب کی گردن میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں تھی تو اب وہ گردن بعض پراسرار غیر منتخب کرداروں کے توسط سے سردار عثمان بزدار نے دبوچ رکھی ہے۔ پنجاب کے موجودہ حکمرانوںنے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اپنی مرضی کے افسران عوام پر مسلط کرکے پنجاب میں جنگل کا قانون لاگوکر رکھا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پنجاب پولیس کے ڈنڈے کے بغیرپنجاب کو چلایا ہی نہیں جاسکتا۔ سندھ حکومت بھی ماضی کی طرح پولیس کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھنا اور ان ڈوریوں کو مرضی سے ہلانے کی خواہش مند ہے لیکن وفاقی حکومت کی ہلا شیری کے بعد آئی جی سندھ سیدکلیم امام بھی سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے نقش قدم پر گامزن ہیں ۔انہوں نے بھی اے ڈی خواجہ کی طرح سندھ حکومت کے خلاف ایک طرح سے علم بغاوت بلندکررکھا ہے۔ پنجاب ہو یا سندھ ،سیاسی مفاد پرستی اورپولیس کو مٹھی میں رکھنے کایہی رواج اورماحول سانحہ ماڈل ٹائون ، سانحہ ساہیوال،سانحہ12مئی ،سانحہ بلدیہ ٹائون جیسے المیے جنم دیتاہے۔ ملک میںپے درپے ظلم وستم کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور اس میں ملوث پولیس اہلکار حکمرانوں کی پشت پناہی کے سبب صاف بچ نکلتے ہیں۔ ہم ان المیوں اور سانحات کے عادی ہوتے جارہے ہیں جو معاشرے گونگے بہرے بن کر جبر اور ناروائی کے سارے وار سہہ جاتے ہیں وہ معاشرے زندگی کے سفر میں زیادہ دور تک سفر نہیں کر سکتے ۔ ان دنوںسندھ حکومت اور سندھ پولیس کے درمیان ایک مرتبہ پھر اختلافات عروج پرہیں،اس سے قبل سندھ میں آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کی تقرری اورتبادلے کامعاملہ عدالت چلاگیا تھا اورصوبائی حکومت کی جانب سے پولیس ایکٹ 1861 ء میں ترمیم کے لیے سندھ اسمبلی میں پیش کیے گئے بل پربھی اختلافات سامنے آئے تھے جس میں پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرری کے اختیارات کو آئی جی سندھ کے دائرہ اختیارسے الگ کرنے کی ترمیم پرسندھ پولیس نے تحفظات ظاہرکیے تھے۔موجودہ آئی جی سندھ ڈاکٹر سیدکلیم امام اور حکومت سندھ کے مابین مخالفانہ خط وکتابت بھی ہوئی۔اس سے قبل ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے معاملے پر سندھ حکومت اور آئی جی سندھ میں اس وقت ٹھن گئی تھی جب آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے ایس پی ڈاکٹر رضوان کو عہدہ چھوڑنے سے منع کردیاتھا مگرآئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام وضاحتی بیان میں اس امرکی تردید کرچکے ہیں کہ انہوں نے کسی پولیس افسرکو عہدہ چھوڑنے سے منع کیا ہے۔ نئے پولیس ایکٹ 2019 ء کے تحت وزیر اعلی سندھ نے آئی جی سندھ کی مشاورت کے بغیر تبادلے اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی طرف سے ایس پی ڈاکٹر رضوان کو صوبہ بدر کرنے کے معاملے پرپیدا ہونے والے اختلافات مزید شدید ہوگئے ہیںایسے میں وزیراعظم عمران خان نے آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے جو اختلافات کو ہوا دینے کا سبب بن گیا ہے۔ سندھ حکومت اور سندھ پولیس میں اختلافات میںاس وقت شدت آگئی کہ جب ایم کیو ایم لندن کے ٹارگٹ کلر یوسف عرف ٹھیلے والا کا وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف بیان منظرعام پرآیا تھا۔ٹارگٹ کلر کے ویڈیو بیان کے بعد آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران نے سنگین غلطی کا اعتراف کیا اور وزیراعلٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے معذرت کی سائیں نے ٹارگٹ کلرکے بیان کو غفلت نہیں بلکہ اپنے خلاف سوچی سمجھی سازش قراردیا۔حکومت سندھ کی جانب سے صوبہ بدرکیے جانے والے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان نے 24 نومبر کو ایک بیان میں الزام لگایا تھاکہ شکارپور میں وڈیرے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتے ہیں، جب پولیس ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو اعلیٰ حکام پولیس کی مدد نہیں کرتے، اس بیان کے بعد ڈاکٹر رضوان کو معطل کرتے ہوئے صوبہ بدر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس پرسندھ کی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ نے پولیس قوانین کے مطابق آئی جی سندھ سے مشاورت نہیں کی ہے جس کی بناء پریہ تبادلے غیرقانونی ہیں۔رینجرزاختیارات،پولیس ایکٹ میں ترمیم کے بعد وفاق اورسندھ حکومت اب پولیس افسران کے تبادلوں کے معاملے پرآمنے سامنے ہیں۔ مجھے اور میرے قاری کو دوسیدوں کے مابین اس لڑائی سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن کراچی میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت پر میرا اور عوام کا دونوں ذمہ داروںسے سوال بنتا ہے کہ سال 2019ء میں شہر قائد میں قتل وغار ت گری ، حادثات اور مختلف واقعات میں 2186افراد اپنی جانوں سے گئے ، اتنے بڑے جانی اور غیر معمولی مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟پولیس اپنی مٹھی میں رکھنے کے خواہش مند وزیراعلیٰ سندھ یا گروہی سیاست میں لتھڑی سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر سید کلیم امام؟