سیزر بیکاریا اور جرمی بینتھم نے کہا تھا’’ ریاست اور فرد کے درمیان ایک دکھائی نہ دینے والا رشتہ ہوتا ہے۔یہ رشتہ ریاست کو انارکی اور لاقانونیت سے محفوظ رکھتا ہے ‘‘۔ریاست میں فرد خود کو ایک نظام اجتماعی کا پابند کرتا ہے۔ یہ نظام اجتماعی ریاست کے قوانین سے تشکیل پاتا ہے۔ماہرین سماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ قانون کا نفاذ ریاست کی رٹ پر منحصر ہوتا ہے۔ کسی ملک میں ریاست کی رٹ جتنی کمزور ہو گی اس میں اتنی ہی لاقانونیت اور جرائم ہوں گے۔ میک شین نے اپنی تحقیقات سے ثابت کیا کہ قانون اور پولیس کی مداخلت کے باوجود بھی جرائم کی شرح کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ریاستیں جرائم کے تدارک کے لئے جہاں قوانین کی عملداری کو یقینی بناتی ہیں وہاں جرائم کے اسباب جاننے کی کوشش اور ان کے انسداد کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔یورپ میں مجرموں کو سزا کے ساتھ جرائم کی وجوہات کو سمجھنے کے لئے کریمنل سائیکالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آخر لوگ جرائم کیوں کرتے ہیں؟یہ جاننا مجرم کی سوچ اور جرم کی وجوہات کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ۔یورپ میں جرائم کے اسباب جاننے کے لئے مجرم کے سماجی، معاشرتی ،حالات کے علاوہ جسمانی اور جینٹک پہلو پر بھی تحقیقات ہوئی ہیں ۔امریکی ماہر نفسیات رابرٹ ہارے نے 1986ء میںجرائم اور دماغ کی ساخت اور بائیو کیمیکل تبدیلیوں پر تحقیق کی ۔رابرٹ نے اپنی تحقیق میں جدید ٹیکنالوجی سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور پی ای ٹی کا استعمال کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جرائم پیشہ افراد کے جسم میں ڈوپامین کی مقدار زیادہ اور سیروٹونن کی مقدار کم ہوتی ہے ڈوپامین کی مقدار میں اضافہ مجرم کو بے خوف اور جارح بنا دیتا ہے۔ اسی طرح 1980ء میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے بچے جن کو گود لیا گیا تھا مگر ان کے والدین جرائم پیشہ تھے ان میں جرائم کی شرح زیادہ تھی۔ ماہرین کے مطابق جرائم کے ارتکاب کے پیچھے لالچ ‘ غصہ ،حسد اور انتقام کی سوچ کارفرما ہوتی ہے ۔کچھ لوگ جرائم کرنے سے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ملکی قوانین میں جھول تلاش کر کے بچ نکلنے کا پہلے سے راستہ تلاش کیا جاتا ہے ،جرم میں فائدے اور نقصان کا تقابل کیا جاتا ہے۔ تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت وائٹ کالر کرائمز جیسے دھوکہ دہی فراڈ جبکہ کم تعلیم یافتہ افراد چوری ڈکیتی اور زنا بالجبر ایسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اب تک کی تحقیقات سے جو بات ابھر کر سامنے آئی ہے اس کے مطابق سخت قوانین جرائم کی شرح کو کسی حد تک کم تو کر سکتے ہیں ختم نہیں۔ پاکستان میں موٹروے کے دلخراش واقع کے بعد ایک بار پھر ایسے بہیمانہ جرائم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی کی سزا کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایسے سفاک افراد کو پھانسی کی سزا کی حمایت کے علاوہ ان کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی بات کی تو ان پر تنقید شروع ہو گئی بعض حلقوں کی طرف سے مذاق بھی اڑایا گیا جو یقینا لاعلمی کی وجہ سے تھا ورنہ دنیا کے کئی ممالک میں ریپ کیسز میں یہ سزا رائج بھی ہے جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا جنسی صلاحیت سے محروم کرنے سے یہ بربریت کم ہو سکتی ہے تو جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ریپ کے عادی مجرموں میں سے 46فیصد افراد نے سزا کے بعد بھی دوبارہ ریپ کیامگر جن افراد کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا تھا ان میں یہ تناسب محض 3فیصد تھا ۔اس تحقیق کو دیکھا جائے تو وزیر اعظم کی رائے ایسی غیر مناسب بھی نہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب ملک میں جنسی زیادتی اور قتل کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2020ء کے ابتدائی چھ ماہ میں کم از کم 8بچے یومیہ اس ظلم کا شکار ہورہے ہیں مجموعی طور پر 1489بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ 2020ء میں بچوں سے زیادتی کے کیسز میں 14فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ریپ کیسز میں اضافہ اس سے بھی زیادہ ہے آخر کیوں؟ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے ،ریاست کی رٹ کی کمزوری اور قانون کی عملداری نہ ہونا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ریپ کیسز میں سزا کی شرح تین فیصد سے زیادہ نہیں، جب مجرموں کو سزا کا خوف ہو گا نا ریاست جرائم کے تدارک کے قوانین کے ساتھ اسباب کے انسداد پر توجہ دے گی تو جرائم میں اضافہ تو ہو گا۔ ریاست کی رٹ محض تقریروں سے قائم ہونے والی نہیں اس کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یونہی معصوم بچے درندگی کا نشانہ بنتے رہیں گے اور مائیں بچوں کے سامنے وحشت کا شکار ہوتی رہیں گی۔ محض سزا کے خوف سے جرم کم ہو سکتا تو موٹر وے کے واقعہ کے بعد پولیس کی کارروائیوں اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کے بعد گزشتہ روز جی ٹی روڑ سے میاں بیوی کو ورغلا کر کالا شاہ کاکو لے جاکر شوہر کے سامنے بیوی کواجتماعی زیادتی کا نشانہ نہ بنایا جاتا۔ اگر حکومت اب بھی مناسب اقدام نہیں کرتی تو بڑھتی لاقانونیت معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ ظالم کو صرف قانون کے آ ہنی ہاتھ سے ہی روکا جا سکتا ہے اور قانون کی عملداری کا انحصار ریاست کی رٹ پر ہوتا ہے ۔ ماہرین قانون کے مطابق پاکستان میں جرائم کی وجہ قوانیں کی کمی نہیں قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔حکومتی رٹ کے لیے نظام عدل کی تطہیر کی ضرورت ہے۔ لاقانوینت ظلم کو جنم دے رہی ہے۔ معاشرے میں ظلم اور قانون کی عملداری کو دیکھ کر ہی شاید حبیب جالب نے چاند کو اس دیس میں نہ نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ قوانین یہاں نہ ٹکتے ہیں ہیں یہاں کاروبار بہت اس دیس میں گردے بکتے ہیں یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر