مشکلیں جب آتی ہیں تو چاروں طرف سے آتی ہیں۔مارچ کے مہینے میں ہم کورونا کی موذی وبا سے دوچار ہوئے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور ویکسین آنے تک پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔یہ مصیبت کیا کم تھی کہ گزشتہ ماہ ٹڈی دل نے یلغار کردی۔ پاکستان کے باون اضلاع ٹڈی دل کی یلغار سے متاثر ہیں۔ تخمینہ ہے کہ کپاس اور مکئی کی فصلوں کا دس فیصد حصّہ ٹڈیوں کے لشکرہڑپ کرگئے ہیں۔ ٹڈیوں کے یہ لشکرمشرقی افریقہ‘ ایران‘ پاکستان اور بھارت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس خطّہ میں ستّر سال بعد ٹڈی دل کا ایسابڑا حملہ ہوا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں ایسے بڑے ٹڈی دل پیدا ہوئے تھے جنہوں نے افریقہ سے لے کر برصغیر پاک و ہند تک تیرہ برس تک تباہی پھیلائی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ قدرت انسانوں کے صبر اور برداشت کا بڑا امتحان لے رہی ہے۔2018ء میںمشرقی افریقہ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں جن سے ٹڈیوں کی افزائش بہت زیادہ ہوگئی جسکا کسی کو پتہ نہیں چل سکا۔ صحرا کی نم مٹی میں اس کیڑے کے انڈے تیزی سے نمو پاتے ہیں۔ گزشتہ سال دو انچ لمبے اس کیڑے نے مشرقی افریقہ میں ایسی تباہی مچائی کہ بعض علاقوں میں نوّے فیصد فصلیںنگل گئیں۔اب یہ ایران‘ پاکستان‘ افغانستان اور بھارت میں پھیل کر اپنے انڈے دے چکی ہیں جو بارشوں کے بعدٹڈیوں کے دل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ٹڈی ایسا کیڑا ہے جو عام حالات میں تو اکیلے رہتا ہے اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن اس کی آبادی زیادہ ہوجائے تو گروہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایک کلومیٹر کے علاقہ میںٹڈیوں کی تعداد آٹھ کروڑ تک ہوجاتی ہے۔ یہ غول بہت تیز رفتاری سے ہوا کے رُخ پر اُڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ایک دن میںسوا سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرسکتا ہے اور راستے میں جو سبزہ نظر آئے اسے کھا جاتا ہے۔ایک چھوٹاسا دل بھی ایک دن میں تیس پینتیس ہزار انسانوں کی خوراک کھا جاتا ہے۔ اگر موسم اور ماحول موافق ہو تو صحرائی ٹڈیوں کی تعدادہر تین ماہ میں بیس گنا بڑھ جاتی ہیں۔ یہی مسئلہ اب پاکستان کو درپیش ہے۔ سردی میں انہوں نے جو انڈے دیے تھے انہوں نے ٹڈیاں بن کر مئی میںفصلوں کی بربادی کی۔ بلوچستان‘ چولستان اور تھر کے صحراؤں میں ٹڈیوں نے انڈے دیے ہوئے ہیں‘وہ مون سون کی بارشوں کے بعد دل بن جائیں گے اور پورے ملک میں پھیل کر فصلوں کا نقصان کریں گے۔ ایران کے ہمارے ملک سے متصل سیستان کے علاقہ میںبھی ان کی افزائش ہورہی ہے۔بھارت کے راجستھان کے صحرا میں بھی۔اسلئے اب پاکستان کوبارشوں سے پہلے ہی ٹڈیوں کے انڈے تلف کرنے کے لیے بھارت‘ایران اور افغانستان کے ساتھ ملکر مربوط کوششیں کرناہوں گی۔خوشی کی بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے اپنے خراب تعلقات کے باوجود ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لیے رابطے شروع کردیے ہیں۔ مشرقی افریقہ کے ممالک جہاں انکی سب سے زیادہ افزائش ہوئی ہے ان کے ساتھ بھی مانیٹرنگ کا طریق کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔اصل مسئلہ مانیٹرنگ کا ہے جو مقامی لوگوں کی مدد سے ہی ممکن ہے۔ وہ متعلقہ سرکاری اداروں کو اطلاع دیں کہ ٹڈیوں کے انڈے فلاں فلاں علاقہ میں موجود ہیں تو ان پرزہر آلود کیمیکلز کا اسپرے کرکے انہیں تلف کیا جائے۔ خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں لوگ ٹڈیوںکو پکڑ کر انہیں مرغیوں کے کھانے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ ویسے تو ٹڈیاں حلال ہیں اور انہیں انسان بھی کھا سکتے ہیں ۔ٹڈی شائد واحد کیڑ امکوڑا ہے جسے اسلام میں حلال قرار دیا گیا ہے۔ اب کچھ ایسی سائنسی تحقیقا ت بھی ہوئی ہیں جن سے پتہ چلا کہ ٹڈیوں میں فائٹو سٹیرول نامی ایک کیمیائی مادہ پایا جاتا ہے جو دل کی بیماریوں کو روکنے میں مفید ہے۔ یہ کیمیائی مادہ کولیسٹرول کوجسم میں جذب کرنے سے روکتا ہے۔ ٹڈیوں میں پروٹین‘ چکنائی اور ایسے معدنیات ہوتے ہیں جو جسم کی قوت مدافعت بڑھاتے ہیں اور جسم کے اندر اعضا کی سوجن کو کم کرتے ہیں۔ان ٹڈیوں کو بھون کر بھی کھایا جاسکتا ہے اور کچا بھی۔ ایک ٹڈی میںاسکے وزن کے ساٹھ فیصد کے برابر پروٹین اور سترہ فیصد تک چکنائی ہوتی ہے۔ ان میں کئی وٹامن کے ساتھ ساتھ کیلشیم‘ میگنیشم اور سلینیم ایسی معدنیات بھی ہوتی ہیں۔ یوں ٹڈی بہت اچھی غذا ہے لیکن اس سارے معاملہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ موجودہ زمانہ میں ٹڈیوں کو کھانا یا جانوروں کو کھلانا ایک خطرناک کام ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لیے ان پر جو کیمیائی زہر استعمال کیے جاتے ہیں ان میں عام طور سے آرگینو فاسفیٹ‘ کاربامیٹ‘ پائری تھرائیڈ نامی کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب کیمیکل بہت زہریلے ہیں۔ مثلاً آرگینوفاسفیٹ انسانی اعصاب کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اگر یہ کیمیائی مادہ کسی انسان کے جسم میں چلا جائے تو سر میں درد‘ متلی‘ بے خوابی‘ اور ذہنی انتشار ایسے عوارض کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر بہت کم مقدار میں بھی یہ انسانی جسم میں چلا جائے تو اسکے میٹا بولزم میں خرابی پیدا کرسکتا ہے۔ اس سے بدن میں شوگر کے مرض کا باعث بن سکتا ہے۔ ٹڈیوں کے بعض اسپرے ایسی دوائیں استعمال کرتے ہیں جن سے متاثرہ ٹڈیوں میں فاسفورس کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اگر ان ٹڈیوں کو کھا لیا جائے تو انسان کے جگر‘ گردہ اور دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ہڈیوں کے بھربھرانے کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ یہ زہر مرغیوں سے ہوکر انسان تک پہنچ سکتا ہے۔ہمارے ملک میں عام طور پر لوگ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ چونکہ یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ ٹڈی دل حلال ہے ‘اسے کھایا جاسکتا ہے اور جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے تو لوگ اسی پر عمل پیرا ہیں۔حکومت کوآگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ اسپرے کرنے کی وجہ سے اب یہ حلال کیڑا مکوڑا نقصان دہ ہوچکا ہے۔ اسے مرغیوں کی غذا کے طور پربھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔