ادھر مرا دل دھڑک دھڑک کر عجب عبرت بھر ی ندامت سے سوچتا تھا کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے 2019ء کے حوالے سے اپنا محاسبہ کروں تو سوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کتنے عہد پیماں باندھے تھے۔ اپنے آپ سے سال گزشتہ کے بارے میں۔ مگر اب سینے کے نہاں خانے میں سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کے بارے میں بہت کچھ سوچا تھا۔ کئی تفاسیر‘ امریکہ و یورپ میں چھپنے والی چند نئی مطبوعات کے مطالعے اور بہت سی ایسی پرانی کتابوں کی ورق گردانی کا ارادہ تھا کہ جنہیں کبھی ایام فرصت میں بڑے انہماک سے پڑھا تھا۔ افسوس کہ کئی ارادے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی: یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے جہاں تک قومی محاسبے کا تعلق ہے تو 2019ء ’’یوٹرنز‘‘ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جناب عمران خان نے غریب اور سفید پوش لوگوں کی پلکوں میں کئی خوش رنگ خواب آویزاں کئے تھے مگر یہ سارے سہانے سپنے خواب پریشاں بن گئے۔ اس تقریباً ڈیڑھ برس کے عرصے میں مہنگائی تمام سابقہ حدود و قیود عبور کر گئی‘بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا۔ سیاسی تقسیم شدید تر ہو گئی جبکہ سیاسی جماعتوں میں بہت تلخی بڑھ گئی۔2019ء میں عدلیہ نے نہایت جرأت مندانہ کردار ادا کیا جو قومی سطح پر ایک نہایت ہی مثبت پیش رفت ہے۔ جناب عمران خان آزاد میڈیا کے سب سے بڑے حامی اور شیدائی تھا اور اسی میڈیا نے شہر اقتدار تک ان کی رسائی ممکن بنائی تھی۔ مگر 2019ء میں یہی میڈیا خان صاحب کی آنکھوں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا۔ سب سے اہم بات کہ گزشتہ ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں جناب عمران خان کنٹینر سینڈروم سے چھٹکارا نہ پا سکے اور یہ سنڈروم ایک آسیب کی طرح ابھی تک ان کے مجموعی مزاج پر چھایا ہوا ہے۔ جناب عمران خان نے قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کروا کے دم لیں گے۔ انہوں نے 2019ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نہایت موثر اور پرجوش خطاب کیا تھا جسے مسلمانوں نے بالعموم اور اہل کشمیر و اہل پاکستان نے بالخصوص بے حد سراہا تھا۔ یہ خان صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے نہ صرف عمران خان کی تقریر کی پذیرائی کی بلکہ ان کا بہت شکریہ بھی ادا کیا۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ایک دھواں دھار تقریر کے بعد کشمیر کے معاملے میں خان صاحب نے لب سی لئے اور کسی طرح کا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہولناک و خوفناک کرفیو کا 150واں دن ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد او آئی سی کی سمٹ نہ سہی کم از کم وزرائے خارجہ سطح کا ایک ہنگامی اجلاس اسلام آبادمیں ہو نا چاہیے تھا جس میں بھارت کو کشمیر میں کرفیو ختم کرنے‘ قیدیوں کو رہا کرنے اور فون اور نیٹ کی سہولتیں بحال کرنے اور مسلمانوں کے خلاف کشمیر یا بھارت میں کسی طرح کے منفی اقدام سے اجتناب کا بھر پور مطالبہ کیا جاتا۔ اب سعودی عرب کی خوشنودی کے لئے ہزارجتن کرنے کے بعد بھی یہ سننے میں آ رہاہے کہ اپریل 2020ء میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا کشمیر کے معاملے پر اجلاس بلایا جائے گا۔ اسے کسی طرح بھی سنجیدہ طرز عمل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو محض اشک شوئی اور گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے۔ 2019ء کے دوران دنیا بھر میں کئی واقعات دیکھنے میں آئے جن میں شمالی کوریا کے ساتھ امریکی مذاکرات’ شام میں ہولناک تباہی‘ عراق ‘ ہانگ کانگ‘ فرانس‘ لبنان وغیرہ میںاپنی حکومتوں کے خلاف ہونے والے شدید مظاہرات شامل ہیں۔ مگر 2019ء کا سب سے اہم واقعہ سیکولر بھارت میں ہندو ریاست کا قیام ہے۔ نریندر سنگھ مودی نے منتخب ہونے کے بعد پہلے تو اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کو توپوں اور بندوقوں سے خاموش کرنے کی کوشش کی اور پھر 11دسمبر کو ’’بھارتی شہریت کا ترمیم بل‘‘ ایوان بالا سے منظور کروا لیا۔ اس بل کے مطابق دوسرے ممالک بالخصوص بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندوئوں‘ بودھوں‘ سکھوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی مگر ان ممالک سے یا کہیں اور سے آنے والے مسلمانوں کو ہرگز بھارتی شہریت نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح سے مودی نے بھارت کے سیکولر جمہوری دستور پر اپنے آمرانہ قلم سے خط تنسیخ پھیر دیا اور عملاً ایک ہندو ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس غیر آئینی‘ متعصبانہ اور انسانیت کش اقدام کے خلاف دارالحکومت نیو دہلی سمیت سارے بھارت میں زبردست مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک 28کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ مسلمانوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے اور ان پر جھوٹے الزامات لگا کر بھاری جرمانے کئے جا رہے ہیں۔ معروف بھارتی صحافی خشونت سنگھ نے اپنی کتاب دی اینڈ آف انڈیا میں لکھا تھا کہ بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا تاہم پاکستان یا کوئی اور ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گا بلکہ بھارت اپنے متعصبانہ رویوں کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کرے گا۔ یقینا ایسا ہو گا مگر یہ تب ہو گا جب خدا کو منظور ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اب تک ضمیر عالم بدستور کیوں سو رہا ہے؟ بنیادی انسانی حقوق کا چمپئن امریکہ دنیا کے کسی کونے میں کسی انسانی حقوق کی معمولی کسی پامالی پر حشر اٹھا دیتا ہے۔مگر اسے تقریباً ایک کروڑ کشمیریوں اور بیس بائیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کیوں نہیں دکھائی دیتی۔ یورپ بھی نشتند گفتند سے آگے نہیں بڑھا۔ سب سے زیادہ افسوس تو بھارت کے دوست عرب ممالک پر ہے جنہوں نے 2019ء میں کشمیر و بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر افسوسناک خامشی اختیار کئے رکھی۔ سب سے زیادہ تو اپنے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں پر حیرت کے کہ جنہوں نے کشمیر سے منہ موڑ لیا ہے اور ہولناک خاموشی کی چادڑ اوڑھ رکھی ہے اور کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ 2019ء میں دنیا میں درجنوں نئی ایجادات ہوئی ہیں۔ اگلے دو تین سالوں تک امریکی ہسپتالوں میں روبوٹ سرجن آپریشن کرنا شروع کر دیں گے۔ اس موضوع پر معلومات رکھنے والے امریکی دوستوں نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ ایک عشرے میں بہت سے شعبوں میں مشینوں کا راج ہو گا۔ وہی مشینیں جن کے بارے میں مرشد اقبال نے کہا تھا کہ: ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات انسانی مساوات‘ بنیادی انسانی حقوق اور سچے اور کھرے انصاف کے باب میں عالمی سطح پر نہ صرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ بے حد تنزلی ہوئی ہے۔اس طائرانہ جائزے کے دوران آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں لہٰذا اب اپنے نشیمن کی طرف لوٹتے ہیں۔ تمام لبوں پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا 2020ئ‘2019ء سے مختلف ہو گا؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ یقینا اگلا سات مختلف ہو سکتا ہے۔2020ء میں ہمیں اپنی معیشت کو سنوارنا ہو گا‘ جمہوریت کو مستحکم کرنا ہو گا اور اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا اور اپنے کشمیری اور بھارتی بھائیوں کو عذاب مسلسل سے نجات دلانا ہو گی۔ مگر یہ سب کیسے ہو گا؟ اس کے لئے قومی یکجہتی اور ایک متحرک و زندۂ جاوید پارلیمنٹ کی ضرورت ہے۔ یہ ناممکن نہیں عین ممکن ہے۔ اس کے لئے بس ایک آسان سا کام کرنا ہو گا اور وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حکمرانوں کو اور پھر ساری قوم کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ کیا 2020ء میں ہم یہ آسان کام کرنے کے لئے تیار ہیں؟