حکومتیں وہ ہوتی ہیں جن کے پاس اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے کوئی لائحہ عمل ،کوئی پروگرام ہو ۔ہماری حکومتوں کے پاس سوائے آئی ایم ایف کے کوئی پروگرام نہیں ہوتا اور آئی ایم ایف کا ایجنڈا تیسری دنیا کے ملکوں کو دیوالیہ کرنے کے علاوہ کیا ہے۔ اس وقت ملک میں کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا سے لے کر بلوچستان تک سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں۔لاکھوں لوگ بھوکے پیاسے امداد اور کسی منظم امداد کے منتظر ہیں۔ ان لوگوں تک امداد بھی طریقے سے نہیں پہنچ رہی۔ سیلاب میں فصلیں تباہ ہونے سے پیاز ،ٹماٹر اور سبزیوں کی قیمتیں سو گنا بڑھ چکی ہیں۔کچھ قیمتں بڑھیں اور کچھ ہمارے مسلمان بھائیوں نے خود بڑھادیں کہ یہی ان کی روایت ہے کہ نماز روزے اپنی جگہ لیکن عوام کی ہڈیوں سے نفع کمانا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ یہ ایک منافق اور ریاکاری سے چھلکتے ہوئے سماج کا المیہ ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو سیلاب سے بچے ہوئے ہیں ، بجلی کی قیمتیں مزید بڑھا کر حکومت نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا۔ہر دوسرے دن مزید مہنگائی کے کوڑے عوام کی کمر پر برسائے جاتے ہیں ۔ ہمارے گھر کام کرنے والی ملازمہ روہانسی ہو کر بولی کہ میرا بل دس ہزار آیا ہے جب کہ میرے گھر میں صرف ایک بلب اور پنکھا ہے۔ تمام دن یہ بلب اور پنکھا بھی بند رہتا ہے کیونکہ گھر کے تمام افراد کام پر نکل جاتے ہیں۔ وہ روہانسی ہو کر بولی کہ دس ہزار روپے کا تو ہم نے کبھی گھر کا سودا سلف نہیں خریدا ۔ہم وہ لوگ ہیں جو تھوڑا تھوڑا کر کے آٹا ،گھی اور دال سبزی لے کر روز کی روٹی پوری کرتے ہیں۔ یہ حکومتیں ہمیں ہی لوٹنے کے لئے ہوتی ہیں۔ میں اس کی بات سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یا اللہ یہ تو ایک غریب عورت ہے۔ پاکستان میں ایسے کروڑوں خاندان ہیں جن کے لئے دو وقت کی روٹی پورا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے متوسط طبقے کے لیے بھی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ مختصر خاندان کے عام گھرانے کو ساٹھ ستر ہزار ماہانہ بل آنے لگا ہے۔ بجلی کے بلوں میں گھر کے افراد کی تمام آمدنی چلی جائے گی باقی اخراجات بچوں کے سکولوں کی فیس اور زندگی سے جڑی ہوئی ضروروتیں کیسے پوری ہوں گی۔ میرا خیال ہے کہ سنجیدگی سے پاکستان کو سولر پینل کی طرف آنا چاہیے ۔ سورج کی روشنی ہمیں وافر مقدار میں میسر ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ آسان اقساط پر عام لوگوں کو سولر پینل مہیا کیے جائیں۔ بجلی تو مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ نجانے یہ سلسلہ کہاں رکے گا۔ گذشتہ سے لے کر اب موجودہ حکومت تک یہ آئی ایم ایف کا آزار مسلسل کئی دہائیوں سے عوام سہہ رہے ہیں۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر عوام کو آئی ایم ایف کے جبڑوں میں ڈال دیا ہے ۔ خود اس اشرافیہ کی زندگیوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات بھی ہمیشہ بجلی پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کے بڑھانے پر ہوتے ہیں ۔عوام کو روندنے کے لیے آئی ایم ایف ہمیشہ زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کبھی کیا ہے کہ ہر نوع کا طبقہ اشرافیہ جو ملک کے خزانے سے عیاشی کرتا ہے اس عیاشی کے سلسلے کو بھی فی الفور بند کرنا چاہیے ۔ شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن عوام کو بتائیں کہ ملک اس وقت جن مشکل حالات میں ہے تو انہوں نے سرکاری اخراجات میں کس حد تک کمی کی؟ حکومت میں شامل وزیروں ،مشیروں کی مراعات اور خصوصی الاؤ نسز پر کتنے کٹ لگائے گئے ہیں ؟ عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو حاصل مفت بجلی اور پٹرول کی مراعات کو ختم کردیا جائے ۔ وزیراعظم شہباز شریف عوام کو بتائیں کہ ان کے پاس اس مشکل کا حل کیا ہے؟ مفاہمت کی سیاست کے بادشاہ زرداری صاحب اس پر بھی تو روشنی ڈالیں کہ جب نوے فیصد عوام کی تنخواہیں مہنگائی کے عفریت کے سامنے سکڑ کر آدھی رہ گئی ہیں۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ سکڑی ہوئی کم تنخواہ اور بڑھتی ہوئی ظالم مہنگائی کے درمیان ہمہ وقت ٹھنی رہتی ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ اس کا بھی تو کوئی حل بتائیں۔ خود سندھ میں ان کی اپنی" رعایا " جس بدحالی کا شکار ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ابھی سندھ ہی کی کسی سیلاب زدہ بستی کی خبر چل رہی ہے مائیں چھوٹے بچوں کو فیڈر میں دودھ کی جگہ پانی پلا رہی ہیں۔ بچے وبائی بیماریوں سے مر رہے ہیں۔یا خدا یہ کیسی مشکل آن پڑی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ جنہیں ہم سیاسی رہنما کہتے ہیں وہ حکمران ہوں یا اپوزیشن میں ہوں انکے پاس یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ حالات کی اس گھمبیرتا سے نمٹ سکیں۔ تین ساڑھے تین کروڑ لوگ سڑکوں پر بیٹھے ہیں تو عمران خان الیکشن کا مطالبہ کئے جارہے ہیں۔قومی الیکشن ملک میں بلا شبہ ایک بہت بڑی سرگرمی ہوتی ہے کہ ملک کے تمام اہم اداروں کی توجہ الیکشن کی طرف مبذول ہوجاتی ہے خواہ وہ عدلیہ ہو فوج ہو یا پھر میڈیا۔ سبھی الیکشن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔قومی الیکشن لیکن اربوں کی گیم ہے۔ اس وقت ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں جناتی قسم کے مسائل موجود ہیں۔ یہ تمام جیتے جاگتے لوگ ہیں جن کو واپس زندگی کی طرف لانا ان کے گھر بنانے ہیں ۔ ان کی برباد زندگیوں کو بحالی کی طرف لانا ہے۔ ان حالات میں الیکشن کا مطالبہ بھی نہایت بے حسی معلوم ہوتا ہے۔