اکیس مئی کو اسرائیل کی کابینہ نے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کیا تو فلسطینیوں نے سڑکوں پر نکل کر جشن فتح منایا۔ 27 ویں رمضان المبارک کی متبرک رات کو اسرائیلی افواج کی مسجد اقصی کی بے حرمتی سے شروع ہونے والے جھگڑے نے اسرائیل اور فلسطینی علاقے میں موجود آزادی پسند حماس کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی جس میں 66 بچوں سمیت 250 کے قریب فلسطینوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ دوسری طرف صرف 12 اسرائیلی شہری مارے گئے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کیسی فتح تھی جسکا فلسطینی جشن فتح منا رہے تھے ؟ یہ بات سمجھنے کے لئے میں آپ کو 1982ء میں لیکر جارہا ہوں جب اسرائیل کی لبنان پر حملے کے بعد اس وقت کے اسرائیل وزیر اعظم منہاخم بیگن نے امریکہ کا دورہ کیا تو ایک نوجوان سنیٹر نے ان سے کہا کہ وہ اگر اسرائیل کی جگہ ہوتے تو اپنے دفاع میں جنگ جاری رکھتے بے شک اس میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں کیوں نہ مارے جاتے۔ اسی امریکی سنیٹر نے 5 جون 1996ء کو امریکی سنیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو اسرائیل کو 5 بلینز ڈالر کی امریکی امداد پر معذرت خواہانہ بات کرتے ہیںکورک جانا چاہئے بلکہ اسرائیل کا شکرگزار ہونا چاہئے کیونکہ آج اگر اسرائیل نہ ہوتا تو امریکہ کو اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک نیا اسرائیل بنانا پڑتا۔ 2014ء میں جب اس وقت کے صدر بارک اوبامہ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو میں کچھ معاملات پر کشیدگی تھی اس وقت اسی سنیٹر جو اب نائب صدر بن چکے تھے نے ایک تقریر میں برملا کہا کہ ان کے بیبی سے 30 سال پرانے تعلقات ہیں انہوں نے بیبی سے کہا کہ تمھاری کچھ باتوں پر تحفظات کے باوجود مجھے تم سے پیار ہے۔ ( یاد رہے بیبی نیتن یاہو کا عرفی نام ہے )۔ برنی سینڈرس نے 2019 ء میں جب اسرائیل کے لئے امریکی امداد کو فلسطینوں کے حقوق سے مشروط کرنے کی بات کی تو اسی سنیٹر نے برملا یہ کہا اسرائیل کو دی جانے والی امداد کو کسی پالیسی سے مشروط کرنے کا تصور بھی ان کے نزدیک انتہائی اشتعال انگیز اور ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کا اتنا بڑاحمایتی دیرینہ امریکی سیاستدان آج دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکہ کا صدر ہے۔ موجودہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو 4 بار ویٹو کرنے کے باوجود ہر دفعہ فون پر گفتگو میں جو بائیڈن نے اپنے دیرینہ دوست بیبی کو فوری جنگ بندی کا ہی کہا۔ لیکن اس سے بڑھ کر جو بائیڈن کو اس تنازعے پر ایک ایسا بیان دینا پڑا جو ان سے پہلے ان کے کسی ہم منصب نے نہ دیا اور نہ ہی شاید کوئی یہ بیان دینے کا تصور کر سکتا تھا اور وہ بیان یہ تھا کہ "اسرائیلی اور فلسطینی لوگوں کے آزادی، تحفظ، عزت اور خوشحالی کے مساوی حقوق ہیں "۔ اور ان کی پارٹی جو ہمیشہ سے اسرائیل کی اندھی حامی تصور کی جاتی تھی کے ممبران کی طرف اس دوران یہ مطالبہ کھل کر سامنے آیا کہ صدر کو اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ یہی بائیڈن اب اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کی کھلے عام مخالفت بھی کرتے ہیں۔ اسرائیل کی مشرق وسطی میں بدمعاشی امریکہ کی معاونت اور حمایت کے بغیر جاری نہیں رہ سکتی اور اس امریکہ میں اس وقت اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں تقریبا ہر بڑے شہر میں ہزاروں کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یورپ نے دہائیوں سے اسرائیل کو تقریبا یورپین یونین کے ممبر کا ہی درجہ دیا ہوا ہے برطانیہ تو اسرائیل کا خالق ہے لیکن برطانیہ ، فرانس اور جرمنی میں سے کسی ایک ملک نے بھی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا بلکہ یورپین پارلیمنٹ میں اسرائیل سے جنگ بندی کا اعلانیہ مطالبہ بھی کیا گیا۔ برطانوی ایوان نمائندگان اور ایوان بالا میں تقریبا ہر روز اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق میں ممبران کی طرف سے تقریریں ہو رہی ہیں ۔ یورپ کے ہر بڑے شہر میں فلسطین کے حق میں تاریخی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جبکہ 22 مئی کو لندن میں ہونے والے فلسطین مارچ میں 2 لاکھ سے زائد برطانوی شہریوں نے حصہ لیا۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے اسرائیل کے چاروں طرف موجود کسی ایک بھی مسلم ملک میں یہ ہمت نہیں کہ امریکہ کی مرضی کے برخلاف بزور طاقت فلسطینیوں کے حق میں اسرائیل کے خلاف کوئی جنگی اقدام کر سکیں۔ایران نے ہمیشہ اسرائیل کی کھل کر مخالفت کی لیکن وہ بھی اعلانیہ جنگ کا متحمل نہیں۔ پاکستان اور ترکی اتنا ہی کچھ کر سکتے ہیں جتنا انہوں نے کیا یعنی عالمی سفارتی محاذ پر اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی کی آواز بلند کریں۔ ایسے میں فلسطینی جو 73 سال سے اسرائیل قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو زندہ تو رکھ سکتے ہیں لیکن توپوں کا مقابلہ غلیلوں اور ہوائی جہازوں کی بمباری اور جدید ترین میزائلوں کا مقابلہ چند راکٹوں سے کرتے ہوئے اسرائیل کو ہرا نہیں سکتے۔ ان کی آزادی تب ہی ممکن ہو گی جب عالمی سطح سے ان کو حمایت میسر ہوگی۔ دنیا ان کو مظلوم اور اسرائیل کو غاصب تصور کرے گی۔ اپنی اس جنگ میں وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان کا اس بات پر ایمان تو پہلے ہی پختہ ہے کہ ظلم سے قائم غاصبانہ قبضے نے ایک دن ختم ہونا ہی ہوتا ہے لیکن اب انہوں نے عالمی پریشر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہوئے اسرائیل کی طرف سے غیر مشروط جنگ بندی کی صورت میں اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کی ایک جھلک دیکھ لی ہے۔ وہ جشن حالیہ جنگ میں اپنی بظاہر تباہی کا نہیں منا رہے بلکہ اپنے موقف کی عالمی پذیرائی کا منا رہے ہیں جو انشاء اللہ جلد ان کی آزادی پر منتج ہوگی۔بستیاں تباہ ہونے کا یقینًا دکھ ہوتا ہے لیکن نظریہ کا قائم رہنا اطمینان بخش ہوتا۔ حالیہ جنگ میں سینکڑوں شہادتوں اور غزا کی خوفناک تباہی کے باجود فلسطینیوں کا نظریہ نہ صرف فتح سے سرفراز ہوا ہے بلکہ وہ فلسطین سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا ہے یہی وہ فتح مبین ہے جس کا جشن فلسطینی منا رہے ہیں اور پوری دنیا کے حریت پسندوں کو سبق دے رہے ہیں کہ آپ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ظاہری فتح و شکست میں نہیں نظریہ کی بقا اور جدوجہد کے تسلسل میں مضمر ہے۔ نظریہ کی زندگی اور اس کی روشنی میں جہد مسلسل ہی میں قوموں کی ابدی حیات کا راز ہے۔ فلسطینی اس راز سے آگاہ ہیں اور یہ آگاہی 73 سالوں کی غلامی کے باوجود ان کو شکست خوردگی سے بچائے اور یقین فتح پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینیوں کا جشن اسی یقین کے مزید مضبوط و مستحکم ہونے کا ہے۔