او آئی سی کی طرف سے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کی مذمت کا بیان جاری کئے پانچ روز گزر چکے ہیں۔بعد ازاں تشویش اور فکر مندی کے مکالمے ادا کئے جارہے ہیں جن سے سر دست فلسطینی با شندوں کو کوئی تحفظ یا مدد ملنے کا امکان نہیں۔ مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم کا وزراء خارجہ کی سطح کا اجلاس موثر مؤقف اختیار کرنے کے اعلان پر ختم ہوا۔ دیکھیے سربراہان کی سطح پر کیا مشورہ طے پاتا ہے جس سے نہتے فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم سے بچانے کا انتظام ہو سکے۔ او آئی سی یا آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن ستمبر 1969ء میں قائم کی گئی۔ یہ اقوامِ متّحدہ کے بعد سب سے بڑا بین الاقوامی فورم ہے، جس کی 53 مسلم ریاستیں ارکان ہیں۔چار مسلمان ریاستیں رکنیت سے محروم ہیں۔ او آئی سی کے قیام کا مقصد عالمِ اسلام کے مفادات کا تحفّظ اور بین الاقوامی امن و ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ تاہم دوبرس قبل ستمبر میں اس کی گولڈن جوبلی منانے میں کسی بھی رْکن مْلک نے دل چسپی نہیں لی اور نہ ہی اس موقع پر مسلمان رہنمائوں نے ایک چھت تلے بیٹھنا گوارا کیا، حالاں کہ اس وقت اْمّتِ مسلمہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہم ہمہ وقت اسلامی دْنیا کے زوال کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات پر آمادہ نہیں اور جب بھی کوئی نیا سیاسی نظریہ منظرِعام پر آتا ہے، اس کے زیرِ اثر آکر تقسیم ہو جاتے ہیں۔ آج فرقہ واریت کے سبب اسلامی ممالک میں خوں ریزی جاری ہے، لیکن مسلمان رہنما اس کا ذمّے دار عالمی سازشوں کو قرار دے کر اپنے عوام کو بہلا رہے ہیں۔ او آئی سی کے قیام کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے سے اسلامی دْنیا میں پیدا ہونے والے قیادت کے خلا کو پْر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس اَمر پر غور نہیں کیا گیا کہ خلافت کے خاتمے میں مغربی طاقتوں کے علاوہ عربوں اور تْرکی کے رہنما، کمال مصطفیٰ اتا ترک کا بھی کردار تھا۔ اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جدّہ میں ہے اور وہیں اس کا پہلا باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا۔ او آئی سی کے اغراض و مقاصد میں اسلامی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی اقدار کا فروغ، رْکن ممالک کے درمیان اتحاد و یک جہتی، سماجی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی تعاون میں اضافہ، بین الاقوامی امن و سلامتی کا قیام اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترویج و ترقّی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ او آئی سی کے قیام کے مقاصد میں دفاعی امور شامل نہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی اور سماجی و ثقافتی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ متعینہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب جب سعودی عرب نے اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام کا فیصلہ کیا تو کئی اسلامی ممالک نے اسے عالمِ اسلام کے درمیان تقسیم سے تعبیر کیا،مختلف طبقات نے اس پر تحفّظات کا اظہار کیا جسے عالمِ اسلام کی دو عملی کہا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس غیر فعالیت کا بنیادی سبب رْکن ممالک میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی دْنیا مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہے اور ہر خطّے کی ثقافت دوسرے سے جْدا ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس فرق کو سمجھے بغیر ہی تمام اسلامی ممالک کو وسیع تر تعاون پر آمادہ کیا جائے۔ او آئی سی دراصل ساٹھ اور ستر کی دہائی کے مسائل سامنے رکھ کر قائم کی گئی تھی۔اس وقت دنیا دو قطبی تھی اور سرد جنگ کا زمانہ تھا۔مسلمان ریاستیں زیادہ تر امریکہ کی اتحادی تھیں،آج دنیا یک قطبی سے کثیر القطبی شکل میں ڈھل رہی ہے۔ اب صرف جنگی صلاحیت ہی طاقت نہیں معاشی قوت بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ان حالات میں برما میں روہنگیا آبادی قتل ہوتی ہے لیکن او آئی سی ان بے بسوں کے لئے مدد کا سامان نہیں کر پاتی۔ ایران عرب چپقلش پروان چڑھی۔ اس چپقلش نے امت مسلمہ کو تقسیم کر دیا لیکن او آئی سی ثالثی کا کردار نہ نبھا سکی۔ یمن میں کئی سال سے خانہ جنگی جاری ہے۔ شام میں تصادم ہے۔عراق مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ لیبیا کا امن و استحکام لوٹ لیا گیا۔ چلیں کشمیر اور فلسطین کو بھلا کر او آئی سی کے سرکردہ ممالک نے اپنے کچھ مفادات بچا لئے ہوں گے لیکن ناموس رسالت اور اسلامو فوبیا کے معاملے پر اس کی رسمی بیان بازی کو کیا نام دیا جائے۔ اسلامی ریاستوں کی بدقسمتی ہے کہ ان پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو حکمرانی کی صلاحیت سے عاری اور عوام کی حمایت سے محروم ہیں۔ او آئی سی کی ناکامی سے ایک سوچ ابھر رہی ہے کہ اس کی بیڑیاں کاٹ کر آگے بڑھا جائے۔ ایک ایسی تنظیم کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی غیر فعالیت میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی ترجمانی کر سکے۔ اس کی ابتدا معاشی بلاک تشکیل دے کر کی جا سکتی ہے جسے بتدریج دفاعی تعاون کے لئے بروئے کار لایا جا سکے۔ رہی بات فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی تو فلسطین کے غیور اور بہادر لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں اسرائیل کو صرف زخمی کرنے پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ یہ جنگ اس مقام پر آ پہنچی ہے جہاں کسی ایک فریق کی مکمل شکست کے بنا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔