مکہ مکرمہ میں او آئی سی کی چودھویں سربراہ کانفرنس میں مسلم امہ کو درپیش مسائل پر تمام رکن ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعلامیہ میں فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کوحل کرنے‘ اسلاموفوبیا کے خاتمہ اور مسلم ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری پر زور دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان‘ سعودی فرما نروا شاہ سلمان‘ ترک صدر رجب طیب اردوان اور دیگر نمایاں سربراہوں کی گفتگو کو خصوصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ عالم اسلام جن مشکلات سے دوچار ہے ان کے حل کے لئے او آئی سی سے امیدیں بڑھ رہی ہیں۔ خصوصاً مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ او آئی سی اجلاس کا انعقادمسلم ممالک کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی دکھ مل کرکم کر سکیں اور باہمی رابطوں کو بڑھا کر سیاسی آزادی اورمعاشی خود کفالت حاصل کر سکیں۔ او آئی سی کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ خلیج کے علاقے میں ایک بار پھر جنگی بیڑے لے آیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں امریکہ سے ہنگامی طور پر 8ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔ یہ جنگی بیڑا بظاہر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کے جارحانہ عزائم سے تحفظ دینے کی غرض سے خلیج میں آیا مگر امریکہ اس کے ذریعے پورے خطے کی سکیورٹی کو دبائو کا شکار بنا رہاہے۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش عالم اسلام کے اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ خوشحال عرب ریاستوں کے مالی وسائل امریکہ ہڑپ کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ نے خلیج کے علاقے میں ایک کشیدہ صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ایران عراق جنگ‘ کویت پر عراقی حملہ ‘ پھر عراق پر حملے کے بعد اس علاقے میں مستقل فوجی اڈے بنا کر امریکہ نے مسلم امہ کے مرکز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ امریکہ نے دوہری پالیسی اختیار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بھر پور سرپرستی کی ہے۔ صدر ٹرمپ امریکہ کا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کر چکے ہیں حالانکہ تمام عالمی قرار دادوں میں اس شہر کو کھلا رکھنے کا ذکر ہے۔ فلسطینیوں کو اسرائیل نے ایک بڑی چار دیوار میں بند کر دیا ہے جہاں سے ہر روز وہ محنت مزدوری کرنے کے لئے سرنگوں‘ تنگ راستوں اور اسرائیل کی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں۔ یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ دو ماہ پہلے امریکہ نے شام کی ملکیت گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ تسلیم کر کے اپنی ترجیحات کا کھلا اظہار کیا۔ پاکستان کی جانب سے تنازع کشمیر کو لاکھوں معصوم کشمیریوں کے انسانی مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے 57مسلم ریاستوں کے سربراہوں اورمندوبین سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ تنازع کشمیر پر بھی بات کی۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ بھارت کشمیریوں کے حق کو تشدد کے ذریعے غصب کئے ہوئے ہے اور مظلوم کشمیری عالمی حمایت کے منتظر ہیں۔ او آئی سی ہر اجلاس میں کشمیر اور فلسطین کے تنازعات پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتی آئی ہے مگر اس ضمن میں رکن ممالک کی جانب سے مطلوبہ تعاون نہ ملنے سے خود تنظیم کی افادیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے او آئی سی اجلاس کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان‘ مصری صدر السیسی اور افغان صدر اشرف غنی سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی‘ ادھار ادائیگی پر تیل کی فراہمی اور دوسرے منصوبوں پر عملدرآمد تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کی مخصوص تنائو بھری صورت حال میں اس ملاقات کا ایک مقصد دو برادر مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کی کوشش بھی تھی۔ وزیر اعظم کی جانب سے مصری صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت سے پاک مصر تعلقات کو فعال بنانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اور مصر کے سربراہوں کے ایک دوسرے کے ہاں دورے عشروں سے ممکن نہیں ہو سکے جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کی صلاحیت سے استفادہ نہیں کر سکے۔ مصر میں آئی ایم ایف کا لگ بھگ اسی طرح کا بیل آئوٹ پیکیج جاری ہے جیسا حال ہی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پایا ہے۔ مصری حکام اس سلسلے میں پاکستان سے قابل قدر معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاملہ اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ انخلا امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات سے جڑا ہواہے۔ امریکہ کی خواہش پر پاکستان نے ان مذاکرات کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کیا ہے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے دو ماہ تک فریقین کسی متفقہ معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ پاکستان واضح کرتا آیا ہے کہ اسے افغانستان میں قیام امن کے سوا کسی بات سے غرض نہیں تاہم افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانے کے لئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں ممالک کے مابین براہ راست تعلقات کمزور ہونے کا فائدہ ایسی طاقتیں اٹھا رہی ہیں۔ جو خطے میں بدامنی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔ صدر اشرف غنی سے بالمشافہ ملاقات سے نئی صورت حال سے عہدہ برا ہونے کے لئے باہمی تعاون کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ او آئی سی کو ایک فوجی اتحاد نہیں بنایا جا سکتا تاہم اسے معاشی اور سائنسی وسائل کو ترقی دینے والے بلاک کی شکل دے کر مسلم امہ کی کمزوریوں کو طاقت میں ضرور بدلا جا سکتا ہے۔