یہ حقیقت ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ثابت ہو چکی ہے کہ سوقیانہ زبان استعمال کرنے کے لئے جہالت ضروری نہیں!ان سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کون ہو سکتا تھا۔ تاہم سیاسی حریفوں کو وہ آلو اور ڈبل بیرل کہہ دیتے تھے۔ عوامی جلسوں میں بھی متانت کی سطح سے نیچے اترنا ان کا معمول تھا۔ عمران خان پر بھی برطانوی تعلیم اور ولایت میں قیام کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے خاندانی وارث کو انہوں نے صاحب کے بجائے صاحبہ کہا۔ اس جماعت کے وابستگان کا ردعمل فطری ہے۔ احتجاج ان کا حق ہے! انہیں بُرا منانا چاہیے تھا جو انہوں نے منایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی مرد کی تنقیص کرنی ہو تو انگریزی میں یہ کہنا عام ہے کہ? Who is She بھٹو صاحب اور عمران خان کے درمیان والے عرصہ میں کیا کچھ ہوتا رہا۔ اس کا درست ادراک کیا جائے تو بھٹو صاحب اور عمران خان کے الفاظ جو انہوں نے حریفوں کے لئے استعمال کیے‘ پھول لگیں گے۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف اور نمایاں سیاست دان نے ایک خاتون کے لئے بھری محفل میں کیا الفاظ استعمال کئے تھے کس قبیل کا اشارہ کیا تھا اور شرکائے محفل کس بے دردی سے ہنسے تھے! وہ خاتون اس وقت سیاست میں تھیں۔ مشہور تھیں۔ اب وہ پیش منظر پر نہیں! یہ منظر یوٹیوب پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے! جنرل مشرف صاحب کے وزیر قانون غالباً وہی صاحب تھے جن کے ساتھ‘ کراچی ایئر پورٹ پر ایک مسافر کو زدوکوب کرنے یا کرانے کا واقعہ وابستہ ہے۔ سارا پاکستان گواہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر انہوں نے گالی دی اورزبان سے کم اوربازو سے زیادہ دی! کچھ بھی نہ ہوا۔ آسمان ٹوٹا نہ زمین دھنسی۔ پتھر برسے نہ آندھی چلی۔ گمان غالب یہ ہے کہ کوئی مہذب ملک ہوتا تو سربراہ حکومت ایسی متبذل حرکت پروزیرسے استعفیٰ لے لیتا یا کم از کم معافی مانگنے پر ضرور مجبور کرتا۔ پھر وسطی پنجاب کی حکومت آئی۔ اس عہد ہمایونی میں خواتین کو ٹریکٹر ٹرالیوں کے خطاب دیے گئے۔’’شرو حیا‘‘ نہ ہونے کے طعنے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر خوب برسائے گئے۔ پھر مسلم لیگ نون کے اہل سیاست کا ایک پورا گروہ سامنے آیا جن کا ’’تخصص‘‘ ہی مخالفین کی کردارکشی تھا۔ یہ تقریباً سارے نوجوان تھے۔ دختر نیک اختر کی کمان میں ایک اطلاعاتی ٹیم شب و روز الگ مصروف ’’عمل‘‘ تھی۔ شورش کاشمیری نے ایک بار مولانا مودودی کی تعریف میں ایک نظم کہی۔ اس کا ایک شعر اس موقع پر یاد آ رہا ہے ؎ تونے اک حلقۂ ارباب قلم باندھا ہے جس کے افکار پہ پر تو تری زنجیر کا ہے (ہو سکتا ہے یادداشت نے شعر کے کچھ الفاظ ادھر ادھر کر دیے ہوں)یہ جو گروہ تھا اہل سیاست کا اور سوشل میڈیا کے ماہرین کا جو حریفوں کو دھول چٹانے میں رات دن منہمک تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر مسلم لیگ اعلیٰ قیادت کا پر تو تھا! سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نوجوان وابستگان نے بھی اس حوالے سے کمی کوئی نہیں چھوڑی۔ دشنام طرازی کا ایک عمومی کلچر جو سیاست میں سکہ رائج الوقت ہے۔ تحریک انصاف نے اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا! مگر اس سلسلے میں کیا صرف اہل سیاست مجرم ہیں؟ یہ درست ہے کہ اہل سیاست ہمیں حکمران دیتے ہیں۔ حکمرانوں پر ایک ذمہ داری یہ بھی عائد ہے کہ تہذیب اور شائستگی کے میدان میں قوم کی تربیت کریں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے پوری قوم کا طرز عمل کیا ہے؟ سچ پوچھیے تو گالی گلوچ کا جو کلچر اجتماعی طور پرپورے معاشرے میں جاری و ساری ہے اس کے مقابلے میں سیاست دانوں کی زبان نسبتاً بہت شائستہ ہے! ادیبوں شاعروں سیاست دانوں اور اینکر حضرات کوتو چھوڑیے‘ کبھی مذہبی رہنمائوں کی گفتگو ان کی نجی مجالس میں سنیے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا واقعہ ہے۔ ایک سو دس فیصد مبنی بر حقیقت! ایک عالم دین نماز کی امامت کرا رہے تھے۔ کسی نے آمین بالجہر کے ’’گناہ‘‘ کا ارتکاب کیا۔ سلام پھیرنے کے بعد حضرت نے سجادۂ امامت ہی سے پوچھا کہ یہ کس نے…‘‘۔ قرطاس و قلم اجازت نہیں دیتے کہ غلیظ گالی کو یہاں لکھا جائے! سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ ابھی شہلا رضا صاحبہ نے ایک تنازعہ کھڑا کیا ہے اس کی مخالفت اور دفاع میں جو اندازِ گفتگو اور معیارِ بحث دونوں طرف سے سامنے آ رہا ہے اس پر جتنا ماتم کیا جا سکے‘ کم ہے۔ ذکر اصحابِ رسولؐ کا اوریہ لہجہ ! ظاہر ہے یہ تنازعہ آج کا نہیں‘ سینکڑوں برس سے چلا آ رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ مگر وہ طبقہ جو اس تنازعہ میں اپنے آپ کو نہیں الجھا رہا اور لاتعلق ہے۔ اسے سیکولر کہہ لیجیے یا غیر جانب دار‘ اس کے سامنے آپ کون سا ماڈل رکھ رہے ہیں؟ عوام کی زبان کتنی شائستہ ہے؟ ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو جائے تو دست و گریباں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لئے فریقین جو زبان استعمال کرتے ہیں‘ وہ ہماری اجتماعی ’’تہذیب‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے! وکیلوں کے طرزِ عمل پر ایک نگاہ دوڑا لیجیے۔ جج کا سر کرسی سے پھاڑنے والے وکیل نے زبانی کیا کچھ نہیں کہا ہو گا! اب تو یو ٹیوب نے سارے پردے چاک کر دیے ہیں ؎ اٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔ پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت تمام حجابات اٹھ گئے ہیں۔ اہلِ مذہب اپنی ’’تقریروں‘‘ میں گالی دینے کا جو نیا انداز متعارف کرا رہے ہیں وہ بھی دیکھا جا سکتا ہے! ٹوکے اور تلواریں لہرائی جا رہی ہیں۔ گھروں کے جھگڑے بھی فلم بند ہو کر پھیل گئے ہیں۔ ہماری عورتیں جھگڑتے وقت کون سی زبان استعمال کرتی ہیں۔ ہماری پولیس کا رویہ کیا ہے؟ دوران تفتیش کون سی زبان استعمال کی جاتی ہے؟ اس سارے سیاق و سباق میں اہل سیاست کو معاف نہ کیا جائے توکیا کیاجائے ؟ وہ اسی قوم کے نمائندے ہیں ایک بھائی پولیس میں ہے۔ دوسرا وکالت کر رہا ہے۔ تیسرا سیاست کے میدان میں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سب جھگڑتے وقت دشنام طرازی کا سہارا لیں اور اہل سیاست یہی کام کریں تو مطعون ٹھہریں! ارشاد نبویؐ تو یہ ہے کہ جو جھگڑا کرتے وقت گالی دے وہ منافق ہے مگر اس پر خود اہلِ مذہب عمل نہیں کر رہے تو دوسرے کیا کریں گے۔ ویسے سیاست دانوں کو شاعری کا ضرورمطالعہ کرنا چاہیے۔ گالی کے جواب میں گالی نہ دیں بلکہ مومنؔ کے بقول یہ کہا کریں ؎ لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی قربان تیرے! پھر مجھے کہہ لے اسی طرح