جب کبھی اس ملک کے معیشت دان جن میں اکثریت کا مرکز و محور امریکہ ہے اور جن کا علم آدم سمتھ کے دیئے ہوئے معاشی ماڈل کے گرد گھومتا ہے، پاکستان کی پچھتر سالہ معاشی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے مضامین اور گفتگو کا عمومی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ فوجی آمروں کے دور میں ہی ترقی کی ہے اور جمہوری حکمرانوں نے تو اس ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ یہ معیشت دان جن کی آنکھوں پر عالمی مالیاتی نظام کی عینکیں سجی ہوئی ہیں، وہ قیام پاکستان سے اس امریکی اور مغربی امداد کا جائزہ نہیں لیتے، جو اس مملکت ِ خداداد پاکستان کو صرف انہی ایاّم میں میسر آئی، جب اس ملک پر فوجی ڈکٹیٹر مسلّط تھے۔ یہ امداد اور عنائتیں اس لئے نہیں تھیں کہ وہ یونیفارم پہنتے تھے اور اس وردی میں سویلین حکمرانوں سے زیادہ خوبصورت لگتے تھے، بلکہ اس امداد کے لئے انہوں نے امریکہ اور عالمی استعمار کو جو خدمات پیش کیں اور جس طرح انہوں نے اس ملک کو عالمی قوتوں کا غلام اور باجگزار بنایا اس کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ امریکی امداد کے ساتھ منسلک غلامی کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے یقیناً کسی ایسے فردِ واحد کی ضرورت تھی جو اس خوف سے بے نیاز ہو کہ اس نے کل عوام کے درمیان واپس جانا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی میں غلامی اور فرمانبرداری ایسی نہیں ہوتی کہ ان کے سربراہ کا حکم حرفِ آخر سمجھا جائے اور اس کی فوری تکمیل کی جائے۔ ضیاء الحق کہے کہ ہم کل سے ایک اسلامی شناخت والی سپاہ ہیں تو پھر اٹھارہویں صدی سے قائم آرمی میسوں میں ’’بار‘‘ ختم کر دیئے جائیں اور ڈنر کے آخر میں سربراہِ مملکت کی زندگی اور خوشحالی کے لئے جو دُعائیہ ’’ٹوسٹ‘‘ (Toast) کیا جاتا تھا، اس جام میں اب روح افزاء ڈال دیا جائے، بعد یہ حکم نامہ آناً فاناً نافذالعمل ہو جائے۔ اسی طرح جب پرویز مشرف کی روشن خیالی کے احکامات نافذ کئے جائیں تو صدیوں سے صرف مردوں پر مشتمل یہ فوج، خواتین کو بھی اپنے کیڈر کا حصہ بنا لے۔ سیاسی پارٹیوں میں ایسی اطاعت و فرمانبرداری کہاں۔ ان کے ہاں تو پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے کا راستہ کھلا رہتا ہے، سیاست سے کنارہ کش ہونے کا بھی اختیار موجود ہوتا ہے، لیکن فوج کے ڈسپلن میں ایسا ممکن نہیں۔ آپ بغیر کسی معقول وجہ کے چھوڑ جائیں تو آپ ’’بھگوڑوں‘‘ (Deserters) میں شمار ہوں گے اور اگر معقول وجہ بھی بتائیں تو اکثر اوقات آپ کو بہت ساری مراعات سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی عالمی طاقتوں کو اپنی ضروریات کے لئے اس مملکت ِ خداداد پاکستان کی زمین، افراد اور عسکری قوت کی ضرورت پڑی تو اس پر عنایات کی بارشیں کر دی گئیں مگر ساتھ ہی ان سے مستفید ہونے کے لئے ایک ’’فردِ واحد‘‘ یعنی فوجی آمر کو بھی ہم پر مسلّط کر دیا گیا۔ پاکستان کی گزشتہ تاریخ میں اس ملک کو ملنے والی امریکی امداد کا عہد بہ عہد مطالعہ کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ پہلے تین سال ایسے تھے کہ ہمیں امریکہ کی جانب سے پھوٹی کوڑی بھی نہ ملی، لیکن لیاقت علی خان کے امریکی دورے کے فوراً بعد علامتی طور پر 1951ء میں ڈھائی لاکھ ڈالر معاشی امداد دی گئی، جبکہ کسی بھی قسم کی فوجی امداد نہ ملی۔ لیکن اگلے سال 1952ء میں یہ امداد ساڑھے سات کروڑ ڈالر تک بڑھا دی گئی، اور اس سے اگلے سال اس کا حجم دس گنا یعنی 74 کروڑ ڈالر ہو گیا مگر 1958ء تک یہ تقریباً اتنا ہی رہا۔ اس عرصے میں پاکستان پر ایک ایسی سویلین حکومت قائم تھی جو بظاہر امریکہ کی دوست تھی مگر عوام کو بھی جواب دہ تھی۔ لیکن جیسے ہی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو امریکی عنایات و نوازشات کی ہم پر بارشیں ہونے لگیں۔ نہ صرف یہ کہ ہمیں معاشی امداد دی جانے لگی بلکہ ہمیں عسکری اور فوجی ضروریات کے لئے بھی تقریباً برابر کی رقم عطا کی جاتی۔ یوں ہمیں 1958ء سے لے کر 1968ء تک کے دس سال میں گیارہ ارب ڈالر امداد کی صورت ملے جن میں سے تقریباً 40 فیصد عسکری امداد تھی۔ لیکن 1969ء میں یحییٰ خان کی آمد، انتخابات کے اعلان اور جمہوری سفر کے آغاز سے ہی ہماری امداد صرف 5 کروڑ ڈالر اور عسکری امداد بالکل ختم کر دی گئی۔ اس دن سے لے کر 1981ء تک کا 12 سالہ دور جو زیادہ تر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پر مشتمل تھا اس میں عسکری امداد تو نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن معاشی امداد بھی کم ہوتے ہوتے 13 کروڑ ڈالر سالانہ تک رہ گئی۔ لیکن جیسے ہی سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور ضیاء الحق نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو 1981ء سے 1990ء تک ہم پر امریکہ کی معاشی اور عسکری امداد دونوں کے دہانے کھول دیئے گئے۔ ہمیں اس عرصے میں سات ارب ڈالر معاشی اور عسکری امداد کے طور پر صرف امریکہ نے دیئے اور باقی ممالک کی امداد اس کے علاوہ تھی۔ لیکن 1991ء میں پھر یہ رقم گر کر 15 کروڑ ڈالر سالانہ کر دی گئی اور 1992ء سے 2000ء تک صرف تین کروڑ ڈالر سالانہ ملتے رہے، جبکہ عسکری امداد میں ایک ڈالر بھی نہیں دیا گیا۔ ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے سانحہ والے سال ہماری امداد صرف چار کروڑ ڈالر تھی جسے ایک دَم بڑھ کر ایک ارب دس کروڑ ڈالر کر دیا گیا۔ پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کا اعلان کیا تو نوازشات و عنایات کی بارشیں شروع ہو گئیں اور اگلے دس سال میں ہمیں تقریباً نو ارب ڈالر ملے اور کولیشن سپورٹ فنڈ اس کے علاوہ تھا۔ان ڈالروں میں سے آدھے ہماری معاشی ضروریات کے لئے تھے اور آدھے عسکری سازوسامان کے لئے دیئے گئے۔ مشرف کے رُخصت ہوتے ہی ہم پھر امریکی نظروں سے گر گئے اور اوباما نے برسراقتدار آتے ہی 80 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد گھٹا کر 55 کروڑ ڈالر کر دی، جس میں سے 30 کروڑ ڈالر تو وہ اخراجات تھے جو افغانستان میں امریکی افواج کی امداد میں ہم اپنی افواج پر خرچ کرتے تھے۔ گزشتہ دس سال اسی’’فاقہ کشی‘‘ میں گزرے ہیں۔ لیکن امریکہ کی افغانستان میں بدترین شکست کے بعد گزشتہ سال سے ہی پاکستان سے فرمائشیں شروع ہو گئیں تھیں کیونکہ ’’امریکہ بہادر‘‘ کو اس خطے میں ایک ٹھکانہ چاہئے۔ ایک ایسا ٹھکانہ جس کے ذریعے وہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کو نکیل ڈال سکے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ناکام بنا سکے۔ افغانستان میں ایک کامیاب اور خودمختار حکومت کا جھکائو چین یا روس کی سمت ہو سکتا تھا۔ افغانستان سے نکلنے سے دو سال پہلے امریکہ نے چین کو روکنے کے لئے چار ملکی اتحاد کے ذریعے بھارت کو آزمایا تھا مگر لدّاخ میں ہونیوالی شکست کے بعد بھارت پر بھروسہ کم کر دیا گیا۔ اہم بات یہ تھی کہ بھارت کی سیاسی اشرافیہ ہماری طرح امریکی احکامات کی مکمل بجاآوری نہیں کرتی اور وہاں عسکری قیادت کو تخت پر لانا بہت مشکل ہے۔ اسی لئے امریکہ کے لئے خطے میں ’’آخری ٹھکانہ‘‘ پاکستان ہی بنتا ہے جہاں سے وہ اپنی اگلی عسکری خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے۔ کیا ہم آئندہ ایک دہائی کے لئے امریکی مفادات کا ایندھن بننے جا رہے ہیں؟ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس جو اگرچہ کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے منعقد ہوئی ہے، لیکن اس معاشی جال میں ہمیں اُلجھا کر ہم پر ایک ایسی جنگ مسلّط کی جانے والی ہے جس سے یہ خطہ آگ و خون میں نہا جائے گا۔ کیا ہم افغانستان کے محاذ پر لڑیں گے اور کیا ہم اپنے قدیم دوست چین کا معاشی راستہ روکیں گے؟ فرمائش تو یہی ہے ، دیکھیں کون پوری کرتا ہے۔ (ختم شد)