کہتے ہیں سوچ سمجھ کر دعا مانگنا چاہیے۔ بار بار سوچتا تھا کہ یہ دھرنے کا مرحلہ ختم ہو تو کچھ اور بات کروں اور نہیں تو دو چار ایسے موضوعات پر ہی گفتگو کر لوں جن کاتعلق براہ راست اس سیاست اور اس کے فریقین سے ہے۔ کچھ تو ہٹ کر بہت دنوں سے سوئی اسی پر اٹکی ہوئی ہے اور کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی۔ یہ عجیب اذیت کا مرحلہ ہوتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قومی زندگی ایک بھنور یا گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ یہ دعا تو قبول ہوئی مگر اس سے کہیں اذیت ناک صورت حال کا سامنا ہے اس لئے تو کہتا ہوں دعا سوچ سمجھ کر مانگنا چاہیے۔ یہ جو ٹرین کا حادثہ ہوا ہے۔ یہ اس بھنور میں پھنسنے والی کیفیت سے بھی زیادہ چکرا دینے والی صورت حال ہے۔ ایک طرف یہ غم کہ اتنے لوگ جاں بحق ہوئے۔ دوسری طرف یہ کرب کہ ہم کہاں پھنس گئے ہیں۔ دو سوالات جو بظاہر معمولی ہیں مگر گہرائی میں دیکھیں تو ہماری اصل صورت حال کے آئینہ دار ہیں۔ ایک طرف تو یہ سوال ہے کہ وزیر ریلوے کو استعفیٰ دینا چاہیے یا نہیں۔ دوسری طرف یہ جائزہ کہ اللہ کے راستے پر نکلنے والے جس سادگی اور فقیری کو سمیٹ کر چلتے ہیں‘ وہ کس حد تک خفیہ اور محفوظ راستہ ہے۔ جہاں جگہ ملے ٹھہر جانا۔ خود ہی مل ملا کر کچھ پکا لینا۔مسجدوں کی صفوں پر رات گزار لینا۔ گزشتہ دو تین سال سے ایسے دو واقعات ہوئے ہیں جس میں تبلیغ کے لئے نکلے لوگ جس مسجد میں ٹھہرے تھے وہ مسجد یں حالات کے ریلوں میں بہہ گئیں۔ ایک دریا کے کنارے تھی۔ پوری مسجد مع ان مبلغین کے دریا برد ہو گئی۔ دوسری مسجد کو زلزلہ نگل گیا۔ اب یہ تیسرا واقعہ ہوا ہے۔ یہ لوگ کسی کے دست نگر نہیں بنتے۔ نہ بڑے بڑے ہوٹلوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک نظم کے تحت خود ہی کھاتے پکاتے ہیں اور سادگی اور فقیری میں تبلیغ کے دن گزارتے ہیں۔ یہ بھی گویا ان کی تربیت اور ان کے ایثار کا حصہ ہوتا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں نے یہ نظام خاص حالات میں اس طرح بنایا تھا کہ نہ صرف خدا کا پیام دور دور تک پہنچا تھا بلکہ اس راہ میں نکلنے والا بھی تربیت یافتہ ہو جاتا تھا۔ اس انداز نے ایک خاص کلچر کی حیثیت اختیار کر لی اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ اس سے وابستہ ہو کر اپنی اصلاح کا انتظام کرتے ہیں۔ اس کے متبادل بھی نظام وضع ہوئے مگر جو مقبولیت اسے حاصل ہے کسی اور کو نہیں۔ اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں مگر ان کو اکیڈمک سمجھئے۔ بنیادی طور پر اس جذبے سے کسی کو انکار نہیں۔ ہمارے ملک کی کئی اہم شخصیات جنید جمشید۔ انضمام الحق ‘ سعید انور جو بھی ان سے وابستہ ہو کر دین کے قریب آتا ہے‘ اسی عمل سے گزرتا ہے۔ گویا ایک یہ صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں محمود ایاز۔ میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ یہ ایک خاص کلچر کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ سب تام جھام‘ بستر ‘ چولہے‘ برتن ایک منظم انداز میں اس سفر کا حصہ ہوتے ہیں۔ تبلیغ بھی ہوتی ہے اور تعلیم بھی۔ اس وقت مرا اس دینی مکتب فکر یہ لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ جب سالانہ اجتماع کے لئے یہ لوگ سفر پر نکلتے ہیں تو ان کے قافلے ایک خاص انداز لئے ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر جب خیموں میں کھانے پکانے کے واقعات پر آگ لگنے کے حادثات ہوئے تو اس بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔ اس سے نہ ثواب میں کمی آئی نہ اللہ کی طرف سے حاجیوں کی تربیت میں کوئی تخفیف ہوئی۔ میں جہاں رہتا ہوں وہاں کا ہر راستہ رائے ونڈ جاتا ہے۔ یہ لوگ جس انداز میں اس مذہبی سفر پر نکلتے ہیںوہ کوئی زیادہ خوشگوار دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ اس میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ ایک اور مطالعہ کا موضوع ہے کہ آخر پڑھے لکھے‘ دنیا دار ٹیکنو کریٹ‘ نیا زمانہ دیکھے ہوئے لوگ جب دین کی طرف آتے ہیں تو اس جماعت کی طرف کیوں متوجہ ہوتے ہیں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان سب کی موجودگی میں فقر اور درویشی کے اس کلچر کو ذرا حالات سے ہم آہنگ کر دیا جائے‘ چلئے ہو سکتا ہے۔یہ درست ہو کہ آگ ان چولہوں سے نہیں لگی۔ بلکہ شارٹ سرکٹ سے بھڑکی ہے۔ پھر بھی کیا حرج ہے کہ اگر اپنے اس کلچر میں درویشی اور فقیری کو سلامت رکھتے ہوئے کچھ تبدیلیاں کر لی جائیں۔یہ اچھی بات نہیں ہوتی کہ جن کے لوگ مر گئے ہوں ان کے اطوار وانداز پر حرف گیری کی جائے۔تاہم یہ باتیں صرف اصلاح احوال کے لئے کی جا رہی ہیں۔ اللہ کرے کوئی اس بات کے مفہوم کی گہرائی تک پہنچ کر اس کے بارے میں سوچے۔ رہی یہ بات کہ ریلوے کا کوئی قصور نہیں ہے تو اگر آگ شارٹ سرکٹ سے نہیں بھی لگی تو بھی ریلوے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ اتنے مسافروں کی آمدورفت کا ٹھیکہ لے کر آپ ان کی سلامتی کا انتظام نہیں کرتے۔ حج کے موقع پر زم زم کی ترسیل میں مسائل پیدا ہو رہے تھے تو ایئرلائنوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ ملک میں دہشتگردی کا چلن اب تو نہیں ‘تین دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ریلوے کے بعض راستوں پر تو سفرکرنا مشکل ہو گیا تھا۔ بلوچستان ہی نہیں سندھ پر مین لائن کا یہ حال تھا کہ جب تک ٹرین یہاں چلتی تھی اوباش قسم کے نوجوان اس کے ڈبوں پر قابض ہو کر من مانیاں کرتے تھے آخر اس مصیبت پر قابو پایا گیا۔ دھڑا دھڑ ٹرینیں چلانے کے اعلان کئے جا رہے ہیں اور سینہ پھلا کر کہا جا رہا ہے اور چلائوں گا‘ کچھ بھی کر لو۔ سب چیخ رہے ہیں۔ اس وقت ریلوے میں اتنی اہلیت اور گنجائش نہیں۔ ریلوے کی پٹڑی کے درمیان میں دیکھ بھال کا وقت ہی نہیں نکلتا اور بھی کوتاہیاں دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر وزیرموصوف فرما رہے ہیں کہ ٹرین کا پٹڑی سے اترنا تو کوئی حادثہ نہیں۔وہ تو اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک چین کی مدد سے ایم ایل ون کا نئی تیز رفتار پٹڑی بچانے کا کام مکمل نہیں ہو جاتا۔ جیسے یہ تیر آپ نے مارنا ہے۔ یہ تو آپ سے پہلے کا منصوبہ ہے۔ آپ نہ آتے تو اس پر کام شروع ہو چکا ہوتا۔ آپ اس کی تاخیر کے ذمہ دار ہیں اور اسے مزید موخر کرنا چاہتے ہیں۔ آخر سی پیک میں تعطل کا وعدہ جو آپ نے کر رکھا ہے۔ صرف نئی ٹرینیں چلانا ہی کارکردگی نہیں ہے اور بہت سے کام ہیں جن کی آپ کو خبر ہی نہیں۔ آپ پہلے بھی ریلوے کے وزیررہ چکے ہیں۔ تب بھی ناکام رہے تھے اب بھی ناکام ہیں۔ مسافروں کو سہولتیں پہنچانا‘ پابندی وقت کرانا‘ تکنیکی طور پر بہتری پیدا کرنا۔ بہت سے کرنے کے کام ہیں۔ ٹرینوں ہی میں بہتری درکار نہیں۔ سٹیشنوں پر سٹیشنوں پر بھی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ انگریز نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نظام وضع کیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں بیکار سے نئے سٹیشن بنائے جا رہے ہیں۔ ہر جگہ سیاست۔ ریلوے کے نظام کو تباہ کرنے کی ایک طویل عرصے سے کوشش کی جا رہی ہے ۔ پہلے والوں کا تو کوئی ایجنڈا ہوتا تھا۔ مثلاً کسی کا خیال تھا کہ فلاں علاقے کے لوگ ریلوے میں کم ہیں۔ بھرتی کر لو۔ حالانکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ کانٹا بدلنے والا اس نظام کا ایک معمولی کل پرزہ ہے۔ بہت کم تنخواہ لیتا ہے مگر ہزاروں مسافروں کی زندگیاں اس کی کارکردگی سے وابستہ ہیں۔ ہر ایک کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ایک وزیر ایسا بھی آیا جن کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا۔ ان کی ساری پارٹی کا تھا۔ انہوں نے حد کر دی کہنے لگے افغانستان میں ریلوے نہیں ہے۔ ہمارے ہاں نہیں ہو گی تو کون سی قیامت آ جائے گی۔ بس پھر یہ سمجھئے کہ: یہ قیامتیں جو گزر گئیں تھی امانتیں کئی سال کیں آپ دھونس سے ریلوے نہیں چلا سکتے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستان کا بجٹ پیش ہوتا تھا تو ریلوے کا الگ سے بجٹ پیش ہوتا تھا۔ یہ ایک خود مختار ادارہ تھا جس کے چیئرمین کا پورے ملک میں ایک وقار اور مقام ہوتا تھا۔ اس ادارے کو روز بروز تباہ کیا گیا۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن اس شہر کی پہچان تھا۔اس میں اب جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق بہت سی جدید سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہیں کہ لگے ہوئے ہیں میانوالی تک ٹرین چلانے میں۔ سعد رفیق چیختے رہ گئے یہ نہ کرو اس میں بڑے مسائل ہیں۔ وزیر موصوف خود کہتے ہیں مسافر ٹرینیں چلانے کے حق میں ریلوے کا کوئی افسر نہیں۔ مگر میں نے چلا کر دکھا دیں۔ رہی ان کے استعفے کی بات تو اس پر میں کچھ نہیں کہتا۔ کیونکہ آزادی مارچ والے تو وزیر اعظم کا استعفیٰ لینے نکلے ہوئے ہیں۔ بس اتنا عرض کرتا ہوں کہ ہر جگہ جدید تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے اللہ کی راہ میںنکلیں چاہے ویسے سفر کے شوق میں۔