برطانیہ جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے۔یہاں حزب اختلاف کو شہنشاہ معظم(یا ملکہ معظمہ) کی وفادار اپوزیشن کہا جاتا ہے۔ہزمیجسٹی ز لائل اپوزیشن۔مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے ریاست کے باغی نہیں بن جاتے۔ہمارے ہاں اسلام کی تاریخ میں ایسے بہت سے گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے ریاست و خلافت کے ہوتے ہوئے عوام کے حقوق کے لئے اختلاف کی آواز اٹھائی۔انہوں نے اسے مصلحت دینی کے منافی سمجھا کہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کی کئی شکلیں ہیں۔ دوسری طرف ایسے بھی لوگ تھے جن میں بڑے بڑے جلیل القدر اور صائب النسل لوگ شامل تھے۔ جنہوں نے حق کی خاطر علم بغاوت بلند کرنا ضروری سمجھا اور ایسے بھی تھے جو ہر فریق کے خلاف تھے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حکومت کے مخالف ہوں۔ آخر الذکر میں سب سے بڑی مثال خارجیوں کی تھی۔ تو میرا مطلب ہے دنیا میں ایسے حالات بھی رہے ہیں جب حزب اختلاف کی عظمت یہ گنی جاتی تھی کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر مخالفت کا علم بلند کریں۔ اس لئے بادشاہ کی وفادار حزب اختلاف ہونا بری بات نہ تھی۔ کیا اب ہم اپنے تناظر میں یہ اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں ہمارے پس منظر میں تو بادشاہ سے بھی جانے کیا مراد لی جائے اور وفادار سے کیا مطلب کیا نکالا جائے۔چند برسوں میں ہمارے ہاں فرینڈلی اپوزیشن کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا اور اسے کوئی خوشگوار تصور نہیں گنا جاتا تھا۔آج مگر جب یوسف رضا گیلانی کے لیڈر آف اپوزیشن مقرر ہونے کی خبر آئی تو جانے کیوں ذہن میں برطانوی جمہوریت کا یہ تصور سامنے آیا۔ حزب اختلاف کے باقی دھڑے یہی تو کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے دو چار روز پہلے یوسف رضا گیلانی کیخلاف حکومت کے حق میں ووٹ ڈالے تھے‘اب ان کے تعاون سے لیڈر آف اپوزیشن بننا فرینڈلی اپوزیشن سے کچھ زیادہ ہے۔سرکار کی وفاداراپوزیشن ‘پتا نہیں کیا کہا جا سکتا ہے۔ چند مہینے پہلے جب پاکستان میں پی ڈی ایم وجود میں آئی تھی تو پورے ملک میں ایک تھرتھلی سی مچ گئی تھی۔سمجھا جاتا ہے ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دن لد چکے ہیں اور ملک میں عوام کے زور پر ایک انقلاب آنے والا ہے۔ ملک میں اقتدار کی حرکیات سے واقف ہونے کے باوجود مجھ جیسے خوش فہم بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہماری مقتدرہ نے ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں تحریک انصاف کا کبھی مخالف نہیں رہا مگر پیپلز پارٹی تو اول روز سے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ،یہ اتحاد عجیب لگتا تھا۔ مگر خیال آتا تھا کہ شاید ہم اپنی تاریخ کا نیا باب رقم کرنے جا رہے ہیں۔نتیجہ یہ کہ بہت سے تجزیے مصلحتوں کا شکار ہو کر سامنے آتے رہے۔سچ پوچھیے تو ہم بھی پیچھے نہ رہے۔اگرچہ یہ بات طے تھی کہ اصل معرکہ پنجاب کے میدانوں میں ہوتا ہے جہاں ابھی تک مسلم لیگ کا زور ہے۔ ایسے ہی جیسے ایک زمانے میں بھٹو پارٹی کا زور تھا۔بھٹو صاحب پنجاب کے زور میں اقتدار میں آئے تھے وگرنہ سندھ میں تو انہیں سادہ اکثریت حاصل نہ تھی۔ اب بھی اصل معرکہ پنجاب میں تھا اور ہے ،جہاں سے پیپلز پارٹی کو دیس نکالا دیا چکا تھا اور پیپلز پارٹی کے مخلص جیالوں کا آج بھی سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ وہ پنجاب میں دوبارہ اپنے پائوں جما سکیں۔ان میں بعض یہ خواب دیکھتے تھے کہ بلاول کو آگے آنے دو وہ اپنے نانا کا پنجاب دوبارہ مسخرکر لیں گے۔افسوس یہ نہ ہو سکا۔چنانچہ یہ کہا جانے لگا کہ پی ڈی ایم صرف اس صورت میں باقی رہے گا جب مسلم لیگ اپنے علاقے میں پیپلز پارٹی کو بعض مراعات دینے کے لئے تیار ہو جائے۔ بلکہ یہ کہ بعض نشستوں کی ضمانت دے۔ یہ نہ ہوا تو گیم بی شروع ہو گئی۔ بعض احباب کہتے ہیں کہ گیم بی کی ابتدا میں پہلا این آر او دیا جا چکا ہے۔ کہاں گئے وہ فالودے والے اور پا پڑ والوں کے مقدمے‘وہ اومنی گروپ کے قصے۔کھلے بندوں کہا جانے لگا کہ مسلم لیگ ن کو زیر کرنے کے لئے سب کچھ ہو رہا ہے۔ مقتدرہ اور پیپلز پارٹی دونوں اس مقصد میں ایک تھے۔چنانچہ نئی تھیوری یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف پیپلز پارٹی‘تحریک انصاف اور ق لیگ سے مل کر ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑیں گے، شاید معرکہ سر کرنے کی کوئی سبیل نکلے۔کہا جا رہا ہے نیا بندوبست یہی کیا جا رہا ہے۔تینوں کا مشترکہ دشمن یہی ہے۔ مسلم لیگ ن اس طوفان کے سامنے کیا ڈٹ سکتی ہے یا نہیں یہ بہرحال ایک ایسا سوال ہے جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت اس سے گریز ہی کرتے ہیں۔بس یہ دیکھنا ہے کہ اگر مقصد یہ ہو تو فطری اتحاد کیا بنتا ہے۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی کا ٹارگٹ بھی ایک ہی ہے اور تحریک انصاف کا اور سچ پوچھئے تو مقتدرہ(یا اسٹیبلشمنٹ) کا بھی ۔پیپلز پارٹی ویسے بھی یقین رکھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آ سکتا۔شاید ن لیگ بھی یہی سمجھتی ہو مگر معاملات اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ لگتا یوں ہے کہ یہ ممکن نہیں رہا۔ویسے سیاست میں کیا ممکن نہیں ہے۔ ذاتی طور پر مسلم لیگ ن کے خلاف مقتدرہ کی یہ یکسوئی سے مجھے بہت خوف آتا ہے۔ یہ ایسے بیج بوئے جا رہے ہیں جس کا پھل چاہے ذرا تاخیر سے آئے مگر ہے بڑا زہریلا۔ کڑوا اور کانٹے دار۔خاص طور پر جب تاریخ کے ایک حساس مرحلے پر کھڑے ہیں۔ بھارت سے دوستی اس وقت کئی معنی رکھتی ہے۔ ذرا بتائو تو سہی کون کون اس کا حامی ہے اور کیوں ہے۔ہم نے واجپائی کو لاہور میں آتے بھی دیکھا اور اسے سلامی نہ دینے والے مشرف کو پہلے کارگل پر چڑھتے پھر تاریخ بدلنے دی اور آگرہ جاتے بھی دیکھا۔سچ پوچھیے تو کسی پر اعتبار نہیں۔دوستی اور دشمنی ہمارے قومی مفادات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پر کہیں دور سے ہلائے جاتے ہیں۔ ہم نے سی پیک سے منہ موڑ کر خود کو تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا کر دیا ہے۔سب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ چین‘ایران‘ افغانستان‘سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور امریکہ۔سب کچھ بدلتا جا رہا ہے۔خدا خیر کرے!ہم سے بھی زیادہ بیوقوف کون ہو گا۔ایسے میں حزب اختلاف کا نقشہ نہیں بدلے گا تو اور کیا ہو گا۔ان حالات میں محض جمہوریت نہیں کسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ انقلاب سے مطلب بغاوت نہیں بلکہ جسدسیاست میں کوئی جوہری تبدیلی درکار ہے۔ سب کو اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینا ہے۔ حکومت کو بھی اور حزب اختلاف کی سب اقسام کو بھی‘فوج کو بھی اور عدلیہ کو بھی۔سب پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔شہنشاہ معظم کی وفادار حزب اختلاف سے گزارہ نہیں ہو گا۔