آئی ایم ایف حکام نے قرض پروگرام بحال کر کے پاکستان کے لیے پچاس کروڑ ڈالر قرض کی قسط جاری کرنے کی سفار ش کی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور پاکستان کے درمیان 6 ارب ڈالر قرض کی تیسری قسط کے معاہدہ کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اپریل میں دے گا۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرض جاری کرنے کے لیے دوسرے سے پانچویں جائزہ مشن نے کی۔ آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے مالیاتی پالیسی میں بہتری اور انفراسٹرکچر اصلاحات کے ضمن میں پیشرفت دکھائی ہے۔ آئی ایم ایف نے کورونا وبا کے دوران پاکستانی معیشت کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت میں مزید بہتری کی امید کی ہے۔ پاکستانی معیشت نے مشکل حالات میں سخت جانی دکھائی ہے ۔چھ ارب ڈالر قرض سے پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی جاتی تو معیشت اپنے قدموں پر کھڑی نظر آتی ،افسوس اس بات کا کہ یہ رقم پہلے سے لئے غیر پیداواری ،خسارے کے منصوبوں پر خرچ ہو گئی۔آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط ہیں جن میں سب سے نمایاں تقاضاپاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور اضافی ٹیکس کی وصولی کا ہے۔حالیہ دنوں بجلی کے نرخوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ ان شرائط کے سبب ہی ہوا۔سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے متاثرہ پاکستانی معیشت جوتہتر برسوں کے بعد پہلی بار گذشتہ مالی سال منفی شرح نمو میں داخل ہوئی، کیا آئی ایم ایف کی ان شرائط کو پورا کر پائے گی؟آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی صورت میں ملکی معیشت پر کیا منفی اثرات ہوں گے اور کیا حالیہ عرصے میں ہونے والی کچھ معاشی بہتری اس سے متاثر ہو گی؟ بظاہر معاشی ماہرین اور حکومتی شخصیات اس بارے میں متضاد خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا قرض اس لئے ضروری ہے کہ سابق حکومتوں نے قرض کی رقوم کو غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا۔ پاکستان کا یہ شروع سے مسئلہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی حکومت اپنی مدت کے اختتام پر ہوتی ہے تو حکومتی اخراجات میں اضافے کی شکل میں ایک بڑا بجٹ خسارہ چھوڑ کر جاتی ہے۔ اس کے ساتھ بیرونی ادائیگیوں کا توازن بھی بگڑا ہوتا ہے۔ہر نئی حکومت کو جب یہ خسارہ ورثے میں ملتا ہے تو اس کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا لیکن پہلے سال وہ اس کشمکش کا شکار رہی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں۔ جب کئی ماہ بعد حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط قبول کرنا پڑیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے اور اس کے ملکی معیشت پر منفی پہلوؤں سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ پروگرام کی شرائط کی وجہ سے پاکستان میں معاشی بحالی کے رْک جانے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے حال ہی میں صنعتی شعبے کے لیے بجلی کے کم نرخوں کا اعلان کیا ہے اگر آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی کے لیے یہ نرخ بڑھائے جاتے ہیں تو ٹیکسٹائل سیکٹر سمیت صنعتی شعبہ متاثر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی شرح نمو گذشتہ مالی سال میں منفی ہو گئی تھی۔ کورونا وائرس کے پیدا کردہ منفی معاشی اثرات کو زائل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سستے قرضوں کی فراہمی کے ساتھ شرح سود بھی کم کی گئی جس نے معیشت کو سہارا دیا اور بحالی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوئے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی جانب سے بحالی اور ٹیکس کی اضافی وصولیاں اور بجلی کے نرخ بڑھانے کی شرائط پورا کرنے کی صورت میں اس معاشی بحالی کے رْک جانے کا خطرہ موجود ہے۔اگر ٹیکس وصولی بڑھانی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو وہ رعایتیں ختم کرنا پڑیں گی جو معاشی ترقی کے لیے مختلف شعبوں کو فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے معاشی بحالی کا عمل سست پڑ جائے گا۔بے شک آئی ایم ایف کو پاکستان کی معاشی پیداوار سے غرض نہیں کہ یہ بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے۔ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ پاکستان کے پاس قرض واپس کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں اور ٹیکس وصولی و بجلی کے نرخ بڑھانے کی شرائط اسی کی ایک کڑی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے قرض کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔ پاکستانی معیشت کو مسائل درپیش ہیں۔ مالی وسائل کی کمی‘ بیرونی قرضوں کی ادائیگی‘ تنخواہوں میں اضافہ‘ بدعنوانی‘ ٹیکس اہداف کا پورا نہ ہونا‘ معیشت کو دستاویزی بنانے کی راہ میں حائل مسائل‘ بیرونی سرمایہ کاری میں ناکافی اضافہ‘ برآمدات میں اضافے کی سست رفتار جیسی مشکلات نے معیشت کے پھلنے پھولنے کی گنجائش سکیڑ دی ہے۔ صورت حال کو مزید ابتر کرنے کا کام آئی ایم ایف کی شرائط اور ایف اے ٹی ایف کی تلوار نے کردیا ہے۔ اس طرح کے جبر اور پابندیوں کی فضا میں یقینا اصلاحات کا ایک متوازی منصوبہ بروئے کار لانا مشکل ہو سکتا ہے لیکن قومی وسائل کو عوام کا معیار زندگی بلند کرنے پر خرچ کرنے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف جیسے اداروں کے شکنجے سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی گرفت سے نکلنا دشوار ہوسکتا ہے‘ ناممکن نہیں۔