مذہبی جذبات مقدس ہیں اگر وہ علم کے تابع ہوں۔ بصورت دیگر یہ جذبات فتنہ و فساد کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے دین میں دینی علم کا حاصل کرنا عورت اور مرد دونوں پر فرض کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جتنا زور دنیاوی علوم کو سیکھنے پر دیتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی دینی علم کو حاصل کرنے پر نہیں دیتے۔ عام مشاہدہ ہے کہ محفلوں میں بالعموم مذہب اور سیاست ہی کے موضوعات گفتگوئوں کا موضوع بنتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں موضوعات پر گفتگو کے لیے بنیادی معلومات سے آگہی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ جن لوگوں کو وضو اور نماز کے مسائل کا پتا نہیں ہوتا وہ بھی مذہبی مسائل پر فتویٰ دینے سے نہیں چوکتے۔ یہ جہالت کا رویہ ہے جو عام ہے۔ مذہب و دین کے معاملے میں حد سے بڑھی ہوئی حساسیت جہاں ایک درجہ پر احسن ہے وہیں باعث تشویش بھی ہے۔ بنیادی بات جو سمجھنے کی ہے کہ دین کی نگاہ میں انسانی جان کی جو اہمیت ہے، اسے حد سے بڑھی ہوئی حساسیت تسلیم کرنے نہیں دیتی۔ جب قرآن حکیم کا ارشاد ہوا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جب رسول اللہ ﷺ انسانی خون کو متبرک کعبہ سے بھی محترم ٹھہرائیں تو کیا ہم پہ یہ فرض نہیں بنتا کہ ہم بھی انسانی جان کو لینے کے معاملے میں محتاط رویے کا مظاہرہ کریں۔ اسلامی تعلیمات کے بہ نظر غائر مطالعے سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ انسان محترم ہے اور اللہ تبارک تعالیٰ نے انسانی جان اور انسانی روح کی حفاظت کے معاملے میں نہایت ذمہ دارانہ رویے کی تلقین کی ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہے کہ روزمرہ کے معمولات میں ہم اپنے دین کے احکامات کو نظر انداز کریں۔ رسول کریمؐ کی تعلیمات کی پروا بھی نہ کریں لیکن جب کوئی مذہبی مسئلہ آئے تو ہم جان لینے اورجان دینے سے بھی گریز نہ کریں۔ بلاشبہ ایک سطح پر مسلمانوں کی مذہبی حساسیت قابل رشک بھی ہے لیکن دوسری سطح پر کیا ہمیں یہ بھی نہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارا دین ایسی حساسیت کو جو فتنہ و فساد برپا کرنے کا سبب بن جائے، کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دین دنیا سے فتنہ و فساد اور کشت و خون کو مٹانے کے لیے آیا تھا اور رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ اس امر کی گواہ ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ امن و امان کے قیام کی کوششیں کیں اور جنگ و جدل کو اسی وقت اختیار کیا جب یہ آپؐ اور صحابہ کرام پر مسلط کردی گئی۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے بقول رسول اکرمؐ کی زندگی میں جتنی جنگیں ہوئیں اور جتنی فتوحات ہوئیں ان میں سب سے کم انسانی جانیں تلف ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے مذاہب اتارے اور جتنے انبیائے کرام کو بھیجا ان کا مقصد انسانی زندگی کی بہتری کے سوا کیا تھا؟ جو بات سمجھنے کی بات ہے، وہ یہی ہے کہ انسان مذہب کے لیے خلق نہیں کیا گیا، مذاہب انسانوں کی نجات کے لیے اتارے گئے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انسان محترم ہے، اس کا خون محترم ہے تو ہمارا یہ عقیدہ بھی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ افسوس تو یہی ہے کہ ہم اپنے دین کی حقیقی تعلیمات کو سیکھنے میں سنجیدگی، محنت اور توجہ کا مظاہرہ نہیں کرتے مگر دین کے معاملے میں جذباتیت اور حساسیت کا مظاہرہ کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتے۔ جب تک ہمارا مذہبی اور دینی رویہ ظاہراً معقول اور مہذبانہ نہ ہوگا ہم دین کے صحیح معنوں میں نمائندہ نہیں کہلا سکتے۔ ہم کسی معاملے کی بھی حقیت معلوم کرنے میں نہ انتظار کرسکتے ہیں اور نہ تلاشو تفتیش ہی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ دنیا ہمارے اس رویے کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے، ہمیں اس کی بھی فکر نہیں۔ دین اسلام آخری دین ہے، اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا۔ رسول اکرمؐ آخری نبی ہیں، اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے یہ ہمارا دین تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کے صحیح ترجمان بنیں اور ہمارا اخلاق اور ہمارے معاملات ایسے ہوں کہ انہیں دیکھ کر دوسرے بھی متاثر ہوں۔ غصے اور اشتعال کے وقت ضبط نفس کی تلقین کیوں کی گئی ہے۔ کسی بھی اطلاع اور افواہ کو تحقیق و تفتیش کے بعد آگے بڑھانے کی ہدایت کیوں ہے؟ سزا دینے کے بجائے توبہ اور رجوع کو احسن کیوں بتایا گیا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر رسول خدا کو رحمت اللعالمین کیوں کہا گیا ہے؟ اگر بدلہ، انتقام اور سزا ہی بہتر تھے تو طائف کی گلیوں اور بازاروں میں زخموں سے نڈھال ہونے کے بعد رسول اللہ نے طائف کی بستی کو الٹ دینے اور خدا کا غضب نازل کردینے سے جبرائیل امین کو کیوں روک دیا؟ میں تو ان تعلیمات پر جتنا غور کرتا ہوں، حیران ہوتا ہوں کہ کیا کسی اور مذہب اور کسی اور فلسفے میں انسان کو اس درجہ محترم قرار دیا گیا ہے؟ انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی اتنی فضیلت کا احساس کیا گیا ہے؟ ہرگز بھی نہیں۔ اور پھر جہاں تک اطاعت کا معاملہ ہے۔ اطاعت اللہ کی، اس کے رسولؐ کی اور حکومت کی، عدلیہ کی… اسلام میں اطاعت پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ اس لیے کہ اطاعت ہی میں تحفظ ذات ہے اور سرکشی، بغاوت اور خودسری ہی میں سراسر گھاٹا اور نقصان ہے۔ امن عامہ کو تباہ و برباد کرکے اور امن و سکون کو وحشت و درماندگی میں بدل کر کیا ہم اپنے دین کی خدمت کر رہے ہیں؟ دین انسان کو ذمہ دار بناتا اور اس کے اندر جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ہمارے دین کی یہ تعلیم نہیں کہ جو منہ میں آئے کہہ دو، جس پر الزام لگانا ہے، بنا سوچے سمجھے اور بنا تفتیش و تحقیق کے الزام لگادو، جن کا اصل معاملے سے کوئی تعلق نہ ہو، ان کو معاملے میں گھسیٹ لائو اور انہیں بھی قابل گردن زدنی قرار دے دو۔ یہ مومن اور کسی مسلمان کی شان نہیں مومن وہی ہے جو مہذب ہو اور اپنے نبیؐ سے عشق اور اطاعت کو اپنے لیے حرز جاں سمجھے۔ جذبات کتنے ہی مقدس ہوں، اظہار جذبات کوبھی اتنا ہی مقدس اور محترم ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ ؑکو فرعون کے پاس دعوت حق لے جانے کا حکم دیا تو کیا یہ تلقین نہ کی کہ سلیقے اور نرم خوئی سے اور حکمت و تدبر سے اپنی بات کہنا، کیا عجب کہ تمہاری بات اس کی سمجھ میں آ جائے۔ فرعون کا معاملہ تو دعوائے خدائی کا تھا، اس سے بڑا جرم بھی کوئی ہوسکتا ہے؟ جو دین قولواللناس حسناً کی تلقین کرتا ہو اس دین کے محافظوں کی زبان و لب و لہجہ کیسا ہونا چاہیے، کیا اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے؟ بلاشبہ ہم دور فتن میں جی رہے ہیں جس کے بارے میں حکم ہے کہ جب اس دور کو پائو تو ویرانے کو نکل جائو اور یہ ممکن نہ ہو تو سلامتی ایمان کے لیے گوشہ عافیت میں بیٹھے رہو۔ کیسے کیسے فتنے ہر سوراخ سے نکل رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق جیسی اور جتنی بے پناہ زمین پر آج ہے، کبھی نہ ہوگی۔ کشمیر میں فلسطین میں، افغانستان، عراق اور شام میں مسلمانوں پر جو گزر رہی ہے ہم ان سب سے لاتعلق ہو کر اپنی مملکت خداداد کے حالات کوبہتر بنانے کے بجائے اسے بھی خطرات اور فتنہ و فسادت سے دوچار کر رہے ہیں، یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں۔ خدا ہم پر رحم فرمائے (آمین) اپنے اعمال سے کہیں ہم خود کو اس کے رحم و کرم سے بے نیاز نہ کردیں۔