سلطان غیاث الدین تغلق (1320ء تا 1325ء )،اگرچہ مشائخ اور صوفیا سے بڑی عقیدت رکھتا تھا،لیکن وہ اپنے عہد کی سب سے ممتاز ہستی، سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سے اچھے تعلقات نہ رکھ سکا،جس کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ غیاث الدین تغلق کے پیشرو سلطان خسرو خان نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے،سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال کیا، اسی پالیسی کے تحت اس نے پانچ لاکھ تنکے حضرت خواجہ نظام الدین ؒ کی خانقاہ کے لیے بھی پیش کئے، جو آپؒ نے فوراً ہی فقراء اور غرباء میں تقسیم کروا دیئے،غیاث الدین تغلق تخت نشین ہوا، تو اُس نے خزانہ خالی پاکر ، ایسے عطیات کی واپسی کا مطالبہ کر دیا، جس پر حضرت خواجہ نظام الدینؒ نے فرمایا "یہ بیت المال کی رقم تھی، اس پر جن لوگوں کا حق تھا،اُن تک پہنچ گئی، میں نے اس میں سے کچھ بھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا"،سلطان اس جواب کو سُن کر خاموش ہو گیا ،لیکن اُس نے دل میں بغض پیدا کر لیا۔ ولی عہدسلطنت۔۔۔کے نام بنگالے سے سلطان غیاث الدین تغلق کا تیسرا حکم آیا کہ جو معمار اور مزدور ہمارے شہر اور قلعے کی تعمیر میں شریک نہیں ہیں اور شیخ نظام الدین بدایونی ؒ(سلطان المشائخ) کی باؤلی (ایک لمبا اور چوڑا کنواں ، جس میں سیڑھیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں)بناتے ہیں، ان کو حکم دیا جائے کہ وہ یہ باؤلی نہ بنائیں اور سارے شہر کے تاجروں کو حکم دیا جائے کہ کوئی شخص شیخ نظام الدین بدایونی ؒ کے مریدوں کو تیل نہ دے، تاکہ رات کے وقت روشنی کر کے باؤلی، یعنی بڑا کنواں، نہ بنائی جا سکے اور شیخ نظام الدین بدایونی ؒ کوحکم دو کہ"میں بنگالے سے روانہ ہو گیا ہوں ،میرے دہلی پہنچنے سے پہلے وہ دہلی سے کہیں چلے جائیں"۔ نتیجتاًولی عہد نے سلطان کے حکم کے بموجب معماروں اور مزدوروں کو باؤلی کی تعمیر سے روک دیا اور تاجروں کوحکم دیا کہ کوئی شخص حضرتؒ کے مریدوں کو روشنی کے لئے تیل نہ دے اور حضرت ؒ کے پاس بھی حکم بھیجا کہ بادشاہ دہلی آنے والا ہے، اس لئے حضرت ؒدہلی سے کہیں چلے جائیں ۔ حضرتؒ نے پھر وہی جواب دیا: " ہنوز دلی دور است " ( ابھی دلی دور ہے ) ۔ ذی الحجہ ۷۲۴ھ میں حضرت ؒ کچھ علیل ہو گئے۔حضرت ؒکی عمر نوے برس کے قریب ہو چکی ہے اور وہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی وجہ سے پہلے ہی کمزور تھے لیکن اس بیماری نے ان کو بہت ناتواں کر دیا ہے ۔ میں روزانہ پابندی سے ،شام کے وقت حضرت ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتااور حضرت ؒ کی بیماری اور کمزوری کو بڑھتا دیکھ کر میرا دل بیٹھا جاتا تھا ۔ شہر کے معمار اور مزدور حضرت ؒ کی باؤلی کے کام سے رک گئے اور دوکانداروں نے تیل کی فراہمی روک دی ۔حضرت ؒ نے اپنے خلفاء اور مریدوں کو حکم دیا کہ وہ باؤلی بنانے کا کام رات دن جاری رکھیں اور باؤلی میں جو پانی ہے اس کوتیل کی جگہ استعمال کریں۔ حضرت ؒ کے اس حکم کی تعمیل میں مولانا نصیر الدین محمود ؒنے تیل کی جگہ پانی سے چراغ روشن کئے ،اسی دن اور نسبت سے نصیرالدین محمود"چراغِ دہلی "کہلائے ۔ شاہی میر عمارت تحریر کرتا ہے کہ آخر بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ گیا اور ولی عہد نے شہر تغلق آباد اور نئے قلعے کو آراستہ کرنے کاحکم دیا اور اس کے ساتھ ہی مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں شہر کے باہر تین کوس کے فاصلے پر موضع افغان پور میں ایک نیا چوبی محل بادشاہ کے ٹھہرنے کے لئے بناؤں تاکہ بادشاہ دہلی کے قریب پہنچے تو پہلے اس نئے مکان میں دعوت کھائے اور نذریںقبول کرے، اس کے بعد دہلی شہر میں داخل ہو اور دوسرے امراء کی دعوتیں اور نذریں قبول کرے ۔ میں نے لکڑی کا یہ محل تین دن میں تیار کرا دیا اور جب ولی عہد نے آکر اس کو دیکھا تو بہت خوش ہوا، کیونکہ میں نے اس کی آرائش بہت اچھی کی تھی اور تین دن میں اتنا بڑا محل بنوادیا تھا ۔ربیع الاوّل ۷۲۵ھ کے شروع کا ذکر ہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق بنگالے کے سفر سے دہلی کے قریب افغان پور پہنچا اور اپنے ولی عہد کے بنوائے ہوئے اس نئے محل کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ ولی عہد نے فوراً کھانا منگوانے کا حکم دیا اور بادشاہ سے اس کی عدم موجودگی کے زمانے کے حالات، جو دہلی میں پیش آئے تھے ،عرض کئے ۔ کھانے میں بادشاہ کے وہ بڑے بڑے امراء بھی تھے جو بادشاہ کو ولی عہد کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے اور بادشاہ کا چھوٹا بیٹا محمود بھی تھا جس کو بادشاہ اپنا ولی عہد بنانا چاہتا تھا اور حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی ؒبھی دسترخوان پر تھے ۔ کھانے کے بعد ولی عہد نے مجھے(میر عمارت) بادشاہ کے سامنے پیش کیا کہ یہی وہ نو مسلم ہے جو دیو گیر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور شیخ نظام الدین بدایوانی ؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا ہے اور میں نے اس کو "میرِ عمارت "کا عہدہ دیا ہے جس کو اس نے سلطان کی عدم موجودگی میں بہت عمدگی سے انجام دیا ہے ۔ یہ عمارت کا فن خوب جانتا ہے چنانچہ یہ چوبی محل بھی اسی نے تین دن میں تیار کرایا ہے ۔ بادشاہ نے یہ سن کر مجھے دیکھا اور کہا :بے شک یہ ہشیار آدمی ہے اور اس نے یہ مکان بہت اچھا بنایا ہے مگر یہ شیخ نظام الدین بدایونی ؒ کامرید ہے اور میں نے تم کو حکم بھیجا تھا کہ شیخ ؒ کو بھی دہلی سے نکال دو اس کے اس مرید کو بھی نوکری سے علیحدہ کر دو،تم نے اس کی تعمیل کیوں نہیں کی؟ولی عہد نے بادشاہ کو اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور شیخ رکن الدین ملتانی ؒسے کہا:عصر کی نماز کا وقت قریب ہے مخدو م ؒ،باہر چل کر نماز پڑھ لیں۔ میں یہاں بادشاہ کی خدمت میں نذر کے ہاتھی پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ سنتے ہی شیخ رکن الدین ؒ بادشاہ کے پاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے اور میں بھی ولی عہد کے ساتھ باہر آیا اور ولی عہد نے نذر کے ہاتھی منگائے۔چونکہ مکا ن نیا تھا اور اس میں فرش بھی لکڑی کا تھا جونہی کئی ہاتھی مکان کے اندر آئے،فرش دبا اور چوبی محل یکایک گر پڑا اور بادشاہ اور اس کا بیٹا اور ولی عہد کے سب مخالف امراء اس محل کی نیچے دب گئے ۔ایک ہاتھی بھی دب گیا۔ہم سب باہر کھڑے تھے۔ولی عہد نے چیخنا شروع کیا:جلدی مزدوروں کو بلاؤ اور رسیاں منگاؤاور ملبہ ہٹاؤ۔ شیخ رکن الدین ملتانی ؒ نے محل گرنے کی آواز سنی تو وہ بھی نماز پڑھے بغیر دوڑتے ہوئے وہاں آئے۔ولی عہد چیختا رہا او ر ہم سب بھی چیختے رہے مگر مزدور وہاں قریب نہ تھے۔وہ اتنی دیر میں آئے کہ جب انہوں نے ملبہ ہٹایا تو بادشاہ اور اس کا بیٹا محمود اور سب امراء مرچکے تھے ۔ راتوں رات بادشاہ اور اس کے بیٹے محمود کو اس مقبرے میں دفن کیا گیا جو اس نے اپنے قلعے کے قریب خود اپنے لئے بنوایا تھا ۔ (جاری ہے)