آثار و روایات میں آتا ہے کہ زمانہ جیسے جیسے دور نبویؐ سے دُور ہوتا جائے گا، ابتر ہی ہوتا جائے گا۔ کیا شبہ ہے اس میں کہ آپؐ کا دور مبارک ہی انسانیت کا بہترین دور تھا۔ اپنے رسول کی تعلیمات سے دوری ہی ہماری سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔ المیہ فقط اس قدر ہے کہ ہم رسول کے عشق میں سرشار تو ہیں لیکن اطاعت سے محروم ہیں۔ جس کتاب میں یہ درج ہو کہ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نے ادنیٰ سی برائی کی ہو، وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نبیؐ نے اپنی لخت جگر کو یہ تنبیہہ کی ہو کہ فاطمہ! عمل کرو عمل، روز حساب اس دن میری نسبت تمہارے کسی کام نہ آئے گی، رسولؐ سے عشق بلاشبہ مطلوبِ دین ہے لیکن اطاعت کے بغیر عشق کے کوئی معنی نہیں۔ گناہ اور برائی کے لیے مسلمانوں کے بعض طبقات نے جو خود ساختہ تاویلات گھڑ رکھی ہیں، ساری غفلت اور بے عملی اسی سبب سے ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو اس غفلت اور بے عملی سے نکالنا اور نیکی کی طرف مائل کرنا اور انہیں نیک بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس صدی کا مجدد وہی ہو گا جو امت مسلمہ کو فاسد عقیدوں سے نکال کر دین کے مبنی برحق عقیدے سے جوڑ دے۔ جو برائیاں ہیں اس میں ایک بڑی برائی ظاہر پرستی ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارے اندر رچ بس گئی ہے۔ ہم نے ان اعمال کو تو اختیار کر لیا ہے جس سے ہمارے دین دار ہونے کی تصدیق ہوتی ہو لیکن وہ باطنی صفات جو مطلوب دین ہیں، انہیں ہم نے چھوڑ رکھا ہے۔محبت، بے غرضی، بے نفسی، ایثار، عفو درگزر، خیر خواہی، دوست داری، دل دہی اور اس جیسی دوسری اچھی صفات جن کی تاکید ہمارا دین کرتا ہے، عامتہ الناس ان کی طرف سے لاپرواہ ہے اور ان کی جگہ لالچ،حرص و ہوس، خودغرضی، بے حسی نفس پرستی، زرپرستی اور دنیا پرستی نے لے لی ہے۔ پورا معاشرہ ان ہی نفسانی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ مسئلہ یہی نہیں کہ ہم زوال و انحطاط میں مبتلا ہیں، بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم شعورِ زوال سے ناآشنا ہیں۔ پریشانی یہی نہیں کہ ہم خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے اچھے ہو جائیں اور ہم تو پہلے ہی بہت اچھے ہیں۔ یعنی نرگسیت، خود پسندی اور خود نمائی بھی ہمارے امراض میں بڑا مرض ہیں۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہم جیسے جیسے مذہب سے قریب ہوتے جاتے ہیں، اپنی انسانی اور اخلاقی صفات کھو بیٹھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم مذہب کے ہو کر ظاہر پرستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک خاص گیٹ اپ کو اختیار کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تقاضائے دین کو پورا کر دیا۔ یہ بھول کر کہ مطلوبِ دین تو انسان کو اپنی عادات و اطوار اور صفات کو بدلنا ہے۔ آدمی اندر سے بدل جائے تو ظاہر کا بدلنا آسان ہوتا ہے۔ ورنہ معاملہ اس پھل جیسا ہو جاتا ہے جس کا چھلکا تو خوش نما ہو لیکن جو اندر سے سڑا ہوا نکلتا ہے۔ مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ایک صاحبِ دل مومن کو اپنے اندر کی صفات کو بدلنے پر پہلے توجہ دینی چاہیے جیسے جیسے اندر بدلتا جائے ویسے ہی ویسے باہر کو تبدیل کیا جائے تا کہ دین دار ہو کے آدمی دین کا غلط نمائندہ نہ بن جائے۔ دین کو جتنا اور جیسا نقصان مذہبی طبقے سے پہنچ رہا ہے، لبرل اور سیکولر طبقے سے نہیں۔ جو ذرا سا مذہب کی طرف جھکائو رکھتا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی آ جاتی ہے جس سے وہ ان لوگوں کو جو مذہبی نہیں ہیں یا اس کے خیال میں جنہوں نے راستی اختیار نہیں کر رکھی، وہ اس احتسابی چھڑی سے دوسروں کی گو شمالی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس رویے پر ہمیں ابن انشا کا فقرہ یاد آتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ہم مسلمان غیر مسلموں کو دین میں داخل کیا کرتے۔ اب صرف دین سے خارج کرنے کا کام کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں میں اصلاحی، تبلیغی اور مذہبی انجمنیں اور تنظیمیں برائے نام تھیں، تب ہم بہ حیثیت مسلمان اچھے تھے۔ ہماری تہذیبی قدریں قابلِ رشک تھیں اور اب جیسے جیسے دینی جماعتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دروس قرآن اور دروسِ حدیث کی محفلیں آباد ہوتی جا رہی ہیں ہم اخلاقی اعتبار سے زیادہ افسوس ناک رویے کے حامل نظر آتے جا رہے ہیں۔ کسی شہر میں چلے جائیے سڑکوں، بازاروں اور دیواروں پہ اسمائے حسنہ، آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ جلی قلم سے لکھے ملیں گے، یہ نورانی اور حکیمانہ تعلیمات کا جتنا اور جیسا چرچا ہے، ہمارا باطن اتنا ہی تاریک اور ٹھٹھرا ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا اس لیے کہ جن تعلیمات کا اظہار ہمارے رویوں میں ہونا چاہیے اور جن کو ہمارے دوسروں سے معاملات میں ظاہر ہونا چاہیے انہیں ہم نے اپنے اندر سے نکال باہر کیا ہے۔ دیواروں پہ درج احادیث اور بل بورڈ پہ درج قرآنی آیات سے ہم خود کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہ حیثیت مسلمان انپا فریضۂ تبلیغ ادا کر دیا ہے۔ لیکن جن تعلیمات اور اوامر و نواہی کو ہمیں اپنے اعمال و اشغال کا حصہ بنانا چاہیے، ان کی طرف سے اس لیے غافل ہو گئے کہ پڑتی ہے اس میں محنت زیادہ۔ کبھی کبھی تو ایسا کچھ خیال پڑتا ہے کہ اگر مسلمان خود ساختہ مذہبیت اختیار نہ کرتے تو شاید زیادہ بھلے مانس اور زیادہ اچھے مسلمان ہوتے۔ سرسید جن دنوں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں مضامین لکھ لکھ کر باعث بحث و نزاع بن گئے تھے تو کسی نے ان سے کہا کہ آپ مذہب کو موضوعِ بناتے ہی کیوں ہیں۔ سرسید نے جواب دیا کہ کروں تو کیا مسلمانوں کا ہر مسئلہ خواہ کسی نوعیت کا ہو اس کا دوسرا سرا مذہب سے ہی جا ملتا ہے۔ سرسید جو ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ بے شک مسائل کے ادراک میں ان سے بھول چوک ہوئی ہو گی لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر سرسید نہ ہوتے تو قائد اعظم اور اقبال بھی نہ ہوتے۔ مگر آج وہی سرسید ہمارے بعض لکھنے والوں اور مذہبی دانش وروں کے نزدیک اپنے دینی عقائد کے معاملے میں لائقِ گردن زدنی ہیں۔ سرسید کا قصور فقط اتنا تھا کہ انہوں نے قوم کو اوہام و گمان سے نکال کر حقیقت اور تعقل سے جوڑنے کی کوشش کی۔ شاید اس وقت قوم کے اندر سے مُردنی اور بے عملی کو دور کرنے کا یہی صائب طریقہ تھا۔ باقی سہو و خطا سے انبیاء کے سوا کون بلند ہے۔ اقبال کی شاعری کو قوم نے اور علماء کرام نے بھی قبول کیا لیکن ان کے خطبات کو علامہ سید سلیمان ندوی جیسے روشن خیال بزرگ نے بھی یہی لکھا کہ اقبال اگر خطبات رقم نہ کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ تو مذہب کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ واضح العقیدگی سے آپ ذرا سے ہٹے اور لعنت و ملامت کے مستحق ٹھہرے۔ اللہ نے انسان کو عقل اور آزادی کی بے پناہ نعمتیں عطا کی ہیں جب آپ اس عقل کو اور غور و فکر اور تدبر کی نعمت کو پابہ زنجیر کر دیتے ہیں تو تقلیدِ محض کے سوا باقی کیا رہ جاتا ہے؟ غلامی میں جیسا کہ علامہ اقبال نے لکھا تقلید ضروری ہو جاتی ہے لیکن آزادی میں ایک نیا جہان پیدا کرنے کے لیے آزادیٔ فکر ناگزیر ہے۔ کیا یہ بات عجیب نہیں کہ جس مفکر نے اسلامی انقلاب کا تصور دیا جس نے سیاست کو اسلامیانے کے لیے ایک جماعت کھڑی کی اور اقتدار کے منبع کو اصلاح و تطہیر کے لیے ضروری جانا آج اسی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے خود کو اس فریضے کا نا اہل بنا لیا اور ریاست کو اپنا ماڈل اس سیاسی لیڈر نے اپنایا جس کی زندگی کا بڑا حصہ مغرب میں گزرا اور جس کی شخصیت کہیں سے بھی مذہبی نہیں تھی۔ گویا یہ سارا معاملہ سلطنت و اقتدار کا منجانب اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو بھی اپنے دین اور خلق خدا کی خدمت کے لیے چن لیں۔ ملکی نظام کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عامتہ المسلمین کی تربیت کا فریضہ بھی ضروری ہے۔ اور اس کا طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ دین کی فکرِ صحیح کو مقدم رکھا جائے اور لوگوں کے تصور دین میں جو کجی آ گئی ہے اسے درست کیا جائے۔ یہ کام بنیادی طور پر علمائے کرام کا ہے لیکن کیا علمائے کرام کا طبقہ اس ذمہ داری کو محسوس کرتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر مذہبی طبقے کو سوچنا چاہیے!۔