وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بیوریج کمپنیوں اور واٹر بوٹلنگ پر فی لٹر ایک روپیہ واٹر چارجز لگانے کی منظوری دی گئی ہے۔ پاکستان میں ملکی اور غیرملکی واٹر کمپنیاں ایک عرصے سے زیر زمین پانی مفت نکال کر آگے مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں جس کے باعث نہ صرف زیرزمین پانی کا لیول کم ہو رہا ہے بلکہ عوام بھی اپنے ہی ملک کا پانی کمپنیوں سے روپے دے کرخریدنے پر مجبور ہیں۔ سابق چیف جسٹس،جسٹس ثاقب نثار نے زیر زمین مفت پانی نکالنے والی کمپنیوں پر باقاعدہ ٹیکس وصول کرنے کا حکم دیتے ہوئے مجاز حکام کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا تھالیکن بیوروکریسی نے نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیر کی اور بعد ازاں صوبائی حکومت نے کابینہ سے منظوری لے کر اس کے نفاذ میں بھی مزیدتاخیر کر دی تھی۔ چلیں دیر آید درست آید پنجاب کابینہ نے اب منظوری دے دی ہے سو اس ضمن میں واسا، لوکل گورنمنٹس اور محکمہ آبپاشی کو پانی کمپنیوں سے فی لٹر ایک روپے کے حساب سے پیسے وصول کرنا شروع کر دینے چاہیئں۔ پانی بیچنے والی کمپنیاں ایک بوتل پر 60 روپے منافع کما رہی ہیں۔ اگر وہ فی لٹر کے حساب سے ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کرائیں تو کوئی مشکل نہیں۔ کئی غیر ملکی کمپنیوں نے اربوں روپے کا مفت پانی حاصل کرکے آگے بیچا ہے۔ انہیں اب ایک روپیہ دیتے ہوئے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔