ماضی میں ایک فلم بنائی تھی سیف الدین سیف صاحب نے، نام تھا کرتار سنگھ، علاؤالدین کی حقیقت سے قریب تر اداکاری اور اداکارہ لیلیٰ اور بہار پر فلمائے گئے گیت، ’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، امڑی دے دِل دا سہارا‘‘نے اس فلم کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا، اور اب ایک فلم بنائی ہے ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے، کرتار پور بارڈر،اس فلم نے پاکستان اور بھارت میں سرحدی لکیروں پر بنائی جانے والی ماضی کی تمام فلموں کو مات دیدی ہے، مزید تڑکہ لگانے کیلئے پروڈیوسر عمران خان نے ہندوؤں کی سیاسی دیوی سشما سوراج کو بھی مرکزی کردار ادا کرنے کی دعوت دی تھی،جسے سشما جی نے قبول نہ کیا،اب فلم ریلیز ہوئی دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا،پاکستان میں بننے والی کوئی فلم اور وہ بھی سیاسی سچائی پر مبنی،،، اتنی کامیاب ہو سکتی ہے یہ تو انڈیا کے کسی اسٹار یا پروڈیوسر نے سوچا تک نہ ہوگا، اب سشما سوراج جی اپنی خفت مٹانے کیلئے اس آئیڈیا کو داد دینے کے ساتھ ساتھ الزام تراشیوں پر بھی اتر آئی ہیں، اور اپنے پرانے الزامات موسیقی کے ساتھ دوہرا رہی ہیں ، بھارت کے ہمیشہ سے متعصب میڈیا کو بھی سشما دیوی نے ساتھ ملا لیا ہے۔اب دیر ہو گئی، چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہیں، جس جس کے مقدر میں داد تھی، عزت تھی اسے مل چکی ، وزیر اعظم پاکستان نے اس کوریڈور کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ دوستی اور اچھے تعلقات کیلئے پاکستان کے تمام ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں، عمران خان نے کہا تو سچ ہی ہے لیکن کشمیر ایشو پر سب اداروں کا ایک پیج پر ہونا ماضی میں کبھی ثابت نہیں ہوتا ،ایسا بھی میرے خیال میں پہلی بار ہی ہوا، کتنا اچھا ہوتا کہ کرتار پور بارڈر پر اپوزیشن کو عملی طور پر ساتھ کھڑا کر لیا جاتا، بہر حال عمران خان نے مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے بائیس سال تک ہم جب کسی اہم ایشو یا فیصلے پر تنقید کرتے تو کپتان کے کھلاڑیوں کے پاس صرف ایک ہی جواب ہوتا ،، خان کب کسی کی سنتا ہے؟۔۔ اقتدار سے پہلے خان صاحب اور ان کی پارٹی کے حوالے سے جو لوگ ہمیں لاجواب کر دیا کرتے تھے،اب ان میں اکثریت وہاں ہے جہاں ان سے اب کوئی سوال کیا ہی نہیں جاسکتا، سارے سوالوں کے جواب دینے کیلئے الیکٹ ایبلز تشریف لے آئے ہیں، اور نئے آنے والے ایسے سوالات کا جواب خان صاحب کا دفاع کرکے دیتے ہیں اور دفاع بھی کیا جاتا ہے بغیر کسی دلیل کے، فرماتے ہیں ابھی آپ کو کپتان کے اقدامات سمجھ نہیں آئیں گے، آج سول سوسائٹی میں جو سوال سب سے زیادہ اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایک کروڑ لوگوں کو ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا انتخابی ایجنڈا دینے والے خان صاحب نے اقتدار کے پہلے سو دن کے اندر ہی لاکھوں لوگوں کو بے گھر ،بے روزگار کیوں کر دیا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تجاوزات کے خلاف گرینڈ کریک ڈاؤن بہت ضروری تھا، سپریم کورٹ کا حکم بھی تھا ،مگر اس طرح نہیں، یہ آپریشن مکمل ہوم ورک کرکے کیا جانا چاہئے تھا، دلیل کے ساتھ سپریم کورٹ سے تھوڑی سی مہلت لے لینی چاہئے تھی ، متاثرین سو پچاس یا ہزار دو ہزار نہیں لاکھوں میں تھے۔عمران خان صاحب ! میں پچھلی پانچ دہائیوں سے غریبوں کے گھر اور کچی آبادیاں تجاوزات کے نام پر مسمار ہوتے ہوئے دیکھتا چلا آ رہا ہوں، ان گھروں کی تو دیواریں ہی بہت کچی ہوتی ہیں، جنہیں ایک دھکے سے بھی گرایا جا سکتا ہے پھر نہ جانے کیوں وہاں بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں؛ جب یہ بلڈوزر ان گھروں کو ملبے کے ڈھیر بناتے ہیں وہاں کچھ ایک ہی طرح کی تصویریں ضرور بنتی ہیں اور ایسی تصویریں اخبارات میں بھی چھپتی ہیں جن کے نیچے اس طرح کے کیپشن لکھے ہوتے ہیں مسمار کئے گئے ایک گھر کی خاتون ملبے کے اوپر بیٹھی اپنے نومولود بچے کو دودھ پلاتے ہوئے۔۔۔مسمار شدہ ایک گھر کی جوان بیٹیاں آج کی سرد رات سڑک پر ہی سوئیں گی۔………ایک ضعیف اور بیمار بوڑھا جس کی ادویات بھی بلڈوز کر دی گئیں…… بلڈوز ہونے والی بہت سی آبادیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں لوگوں نے زمین خرید کر اپنے چھوٹے چھوٹے گھروندے بنائے ہوتے ہیں، ان مکانات پر سالوں کی کمائی نہیں بلکہ نسلوں کی کمائی لگی ہوتی ہے، کیا کسی نے کسی مسمار شدہ گھر کی دہلیز پر بیٹھی کسی بڑھیا کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا ہے؟ اس وطن عزیز میں تو ہر دوسرے آدمی نے کہیں نہ کہیں تجاوز کر رکھا ہے،کیا حکمرانوں، سیاستدانوں،صحافیوں، سیٹھوں اور ریاستی اداروں کے بیجز لگا کر چلتے پھرتے ارباب اختیار کی تجاوزات کو کوئی نیا نام دیدیا گیا ہے؟ زمین پر بیٹھ کر روزی کمانے والے طبقے سے شروعات کرنا نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ان بے چاروں کے دل و دماغ اور جسموں تک پہلے ہی سرمایہ کاروں کے غلبے ہیں ،پہرے ہیں،ان مزدوروں کے وجود کے اندر تک حکمران طبقات نے تجاوزات قائم کر رکھی ہیں۔ مافیا جو ہر کریک ڈاؤن میں خود محفوظ رہتا ہے، یہاں جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس۔۔۔ لگتا ہے دوچار کلرک ہی حکومت چلا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان دنوں خاموش کیوں ہیں؟ یہ معمہ انہوں نے خود حل کردیا ہے، میاں صاحب آجکل عدالتوں کے سامنے اپنے جدی پشتی سیٹھ اور رئیس ہونے کے ثبوت پیش کر رہے ہیں، اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، پچھلے ہفتے انہوں نے جنرل یحییٰ خان کے ساتھ اپنی جوانی کی ایک فوٹو عدالت میں اس استدعا کے ساتھ پیش کی کہ اس اخباری تراشیدہ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے، اور اب انہوں اس حوالے سے اپنا ایک بیان بھی ریکارڈ کرایا ہے جس میں نواز شریف صاحب نے کہا۔۔۔۔۔ لاہور میں پہلی شیورلیٹ امریکن گاڑی ان کے والد نے 1962ئمیں منگوائی تھی، میاں صاحب نے یہ انکشاف بھی کر دیا ہے کہ لاہور میں پہلی اسپورٹس کنورٹ ایبل مرسڈیز ان کیلئے منگوائی گئی تھی۔۔۔ سبحان اللہ میاں صاحب کی جانب سے اپنی امارت کی یقین دہانیوں کے پیچھے کیا راز پنہاں ہے۔ اس کی تو خبر نہیں، لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ میاں محمد شریف مرحوم کے اس ٹیلنٹڈ بیٹے نے جاتے جاتے اپنی عزت بچانے کی ایک اور سعی ضرور کی ہے، میں ہی نہیں بہت سارے شہر زاد اور بھی ابتک زندہ ہیں جو جانتے ہیں، کہ باوردی یحییٰ خان کے ساتھ ان کے بانکپن کی تصویریں کون چھاپتا تھا، کہاں چھاپتا تھا اور پھر ان کی اشاعت کا بل کیسے اور کہاں سے وصول کیا کرتا تھا، اور اگر میاں محمد شریف شیور لیٹ اور مرسڈیز جیسی مہنگی گا ڑیاں امریکہ اور یورپ سے منگوانے کی سکت نہ رکھتے تو پھر کون ہے جو اپنے بیٹے کو ایک جرنیل کے سپرد کرنے اسے رکشہ میں بٹھا کر گورنر ہاؤس تک لے جاتا؟ ٭٭٭٭ جاتے جاتے اپنی ایک پرانی غزل۔۔۔۔ خرد کی بزم سے اٹھ کر اگر گیا کوئی/فریب سود و زیاں سے گزر گیا کوئی/سکوت لالہ و گل میں ہزار طوفاں ہیں/جگا کے حشر چمن میں ،کدھر گیا کوئی/مزاج حسن میں کیا شان بے نیازی ہے/اٹھا کے بزم سے بولے، کدھر گیا کوئی/تیری نگاہ میں آمیزش کرم ہوگی/بلا سبب تو نہ بے موت مر گیا کوئی/ہمیں خوشی کہ اصولوں نے زندگی پائی/ستم شعار سمجھتے ہیں، مر گیا کوئی