ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا‘ ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی قدرت کا سب سے بڑا انعام حیرت اور تجسس ہے۔ یہی حیرتیں تمام ایجادات اور اختراعات کے در کھولتی ہیں۔ بچے کے پاس بھی یہی خوبصورتی اس کی معصومیت کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ وہ جن آنکھوں سے معصومیت سے دیکھتا ہے ان آنکھوں کی روشنی دیکھنے والی ہوتی ہے ، پھر یہ آنکھیں دنیا سے بھر جاتی ہیں تو وہ نور بھی ماند پر جاتا ہے جو اسے فطرت سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ خالد احمد نے کمال کی دعا کی تھی۔ کھلا مجھ پر در امکان رکھنا‘ میرے مولا مجھے حیران رکھنا۔ کیا کریں دھیرے دھیرے انسان پھسلتا پھسلتا رسوائیاں خرید لیتا ہے۔ چلیے اب بات کرتے ہیں تازہ ترین صورت حال کی کہ جس سے حالات کی صورت گری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ وہی جو غالب نے کہا تھا: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن آخر شہباز شریف گرفتار ہو چکے۔ اس کا قوی امکان تھا کہ وہ تقریباً ایک سال اور سات ماہ سے اوپر باہر آزاد گھومتے رہے مگر اپنی پرفارمنس نہ دکھا سکے۔ یہ اپنی جگہ ان کے بقول درست بھی ہو گا کہ انہوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی موت کے بعد بھی اگر کرپشن ثابت ہو تو انہیں لٹکا دیا جائے۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے۔ وہی کہ سو برس اور ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ مگر یہ بات تو ثابت کرنا پڑے گی کہ 1990ء میں 2.12 ملین کے اثاثے پھیل کر 1998ء میں 14 ملین ہو گئے۔ موجودہ اثاثے بھی یقینا سامنے ہوں گے۔ مجھے تو شہبازشریف سے ہمدردی ہے کہ دو کشتیوں میں پائوں رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ہے لیکن ایسی بات بھی نہیں وہ اتنا تو جانتے ہیں کہ اپنے پھر بھی سائے میں پھینکتے ہیں۔ دونوں طرف سے انکار اور ادھر سے انتظار۔ سیاست میں یہ رویہ نہیں چلتا۔ کب تک وہ سنیں کہ: ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی اس گرفتاری سے کوئی ہل چل فی الحال ممکن نہیں ۔میرا نہیںخیال کہ متحدہ اپوزیشن لوگوں کو باہر سڑکوں پر لا سکے۔ خان صاحب کو کوئی پروا یا پریشانی بھی نہیں ۔ ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں بنیادی بات تو یہ ہے کہ انصاف ہو جائے۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی کرپشن کے خلاف جنگ اور پھر احتساب تھا۔ اس کے لیے نیب ان کے پاس تھا مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ عدالت نے کہا کہ یہ نیب انتقامی کارروائیاں کر رہا ہے۔ دیکھئے یہی نہیں ہر معاملے میں احتساب ضروری ہے مگر امتیازی نہیں۔ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ مریم نواز کی زبان جو انہوں نے فوج کے خلاف استعمال کی گدی سے کھینچ لینی چاہیے۔ یقین مانیے میں بھی اس پر صاد کروں گا مگر یہ قانون سب کے لیے ہونا چاہیے۔۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ سب کا احتساب ہوگا اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ وہی ابن انشا والی بات ہے کہ رنجیت سنگھ واحد حکمران تھا جس نے سب کو ایک آنکھ سے دیکھا۔ ویسے تو اکبر بادشاہ بھی چالاکی کرتا تھا کہ ہندوئوں عورتوں سے شادیاں کر کے بھائی چارہ کا سبق دیتا۔ ہندوئوں کو دہنی طرف بٹھاتا اور مسلمانوں کو بائیں جانب مگر ان سے کہتا کہ دل تو اس کا بائیں طرف ہے۔ بہرحال روئے سخن تو سمجھنے والا سمجھتے ہیں: روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا نشیب و فراز سے مجھے فراز بھی یاد آئے بہت سے دوست پوچھتے ہیں کہ کیا شبلی، فراز کے بیٹے ہیں تو ظاہر میں کہتا ہوں بالکل۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ان کی نظم محاصرہ آپ نے سن رکھی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انہوں نے کئی مشاعروں میں سنائی۔ کچھ میں تو میں بھی بحیثیت شاعر شریک تھا لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ باپ کا سبق بیٹے کو بھی ازبر ہو۔ بس یہی جمہوریت ہے۔ صاحب الرائے ہونا اچھی بات ہے۔ ہم بھی احتساب کے حق میں نہیں مگر دوسری جانب دیکھتے ہیں کہ مایوسی دوگنا نہیں سہ گنا ہو جاتی ہے۔ بہت بڑی مثال نواب زادہ نصراللہ خان کی دی جاتی ہے۔ میں بھی ان کا مداح ہوں مگر جب ان کے بیٹے منصور کو مشرف کے دور میں وزارت ملی تو وہ کہنے لگے ہمیں منزل مل گئی ہے۔ ان کا بھی یک نکاتی ایجنڈا نوازشریف کو ہٹانا تھا۔ وہ ساری عمر ہٹانے اور ملانے میں لگے رہے۔ آمریت کے خاتمہ کے بعد جمہوریت کی دم پکڑ کر آنے و الوں نے دم کو وہ مروڑے دیئے کہ جمہوریت چیخ پڑی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتظام ہے اور پھر عوام کی شامت آتی رہی یا یوں نہیں کہ زیادہ ملک کی، کہ اسے نوچا گیا مگر اب کے حکمرانوں نے زیادہ توجہ عوام کی طرف دی اور کوشش کی کہ ان کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر آئی ایم ایف کی بوتلوں میں بھر دیا جائے۔ عوام بالکل ان کیکڑوں کی طرح نظر آتے ہیں جنہیں ہندوستان میں شکجنجوں میں کس کر ان کا خون نکال لیا جاتا ہے کہ دوائیوں میں کام آتا ہے۔ بیچارے بدقسمت عوام بخت کے سکندر کہ ہر آفت ان کے حق میں چلی جاتی ہے۔ قدرت بھی ہم سے ناراض ہے۔