یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں؟ نیا سال اپنے ساتھ ہر شخص کے لئے نئی امنگیں لے کر آیا سوائے ان کے جو برسوں پرانی سیاسی رقابت بھلا کر ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر چلے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کا استعفٰی لینے اور خدا کی شان دیکھئے کہ اب وہی جانباز قسم اٹھا اٹھا کر عوام کو یقین دہانی کرواتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہمارے "ن لیگی شیر" سجاد اعوان اور مرتضیٰ جاوید عباسی نے استعفٰی اسپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروایا ہے۔ جبکہ انکے "شیر" اسپیکر کو تحریری درخواست جمع کروا چکے ہیں کہ یہ جعلی استعفے ہیں اور ہمارے استعفے قبول نہ کیے جائیں۔جبکہ دوسری جانب فضل الرحمن صاحب کی جماعت نے بھی ان کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا ہے۔ مولانا شیرانی، جو 1973ء سے جمیعت علمائے اسلام کے رکن تھے، انکو مولانافضل الرحمن نے محض اختلاف رائے کے اظہا کی پاداش میں پارٹی بدر کر دیا۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ فضل الرحمن صاحب کی دستار بندی ان کے والد، مفتی محمود کے انتقال کے ایک سال بعد 1981ء میں کی گئی۔ خود سے آٹھ سال سینئر رہنما کو پارٹی بدر کرنے کا حوصلہ اسی شخص میں ہو سکتا ہے، جو نعرے تو جمہوریت کے لگائے لیکن یقین بادشاہت پر رکھتا ہو۔ مولانافضل الرحمن 1988ء سے 2010ء تک ہر حکومت کا حصہ رہے اور امریکی ذرائع کے مطابق 2010ء میں جناب نے امریکہ بہادر سے فرمائش کی کہ مجھے وزیراعظم بنائیں۔ آج کل نواز شریف اور فضل الرحمن شدید پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ فوج کو ڈرا دھمکا کر، اور پھر پیار سے پچکار کر اور پھر دوبارہ سے ڈرا دھمکا کر انھیں وہ نتائج موصول نہیں ہو رہے جو ماضی میں انہیں ضیاالحق کے دور میں اور پھر دیگر ادوار میں حاصل ہوتے رہے۔ان کا پرزور اصرار کہ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہیں، دراصل ان کی طرف سے روز بروز شدت پکڑتی التجا ہے کہ پاکستان کی فوج ان کو کسی طرح کرپشن کیسز سے بچائے۔حالیہ پریس کانفرنس میں مولانا کا یہ کہنا کہ لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد ہو گا یا راولپنڈی، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اب پی ڈی ایم کا زخمی شیر ڈھیر ہو چکا ہے۔ زرداری نے سیاست کے داؤ پیچ کچھ یوں کھیلے ہیں کہ اب فضل الرحمن اور نواز شریف نہ اس ہڈی کو نگل سکتے ہیں، نہ اگل سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے نہ صرف استعفے دینے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ لانگ مارچ میں شمولیت کے لئے بھی نواز شریف کی پاکستان واپسی کی شرط رکھ دی ہے۔اس طاقتور چال سے پیپلز پارٹی نے ایک تو یہ پیغام دے دیا کہ ہم اپنے کندھے پر کسی کو بندوق رکھ کر نہیں چلانے دیں گے۔ جبکہ دوسری طرف حکومتی مؤقف کی تائید بھی کر دی کہ نواز شریف اب بالکل تندرست و توانا ہیں ۔ذرائع کے مطابق مریم کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ان کا بلاول سے اچھا گٹھ جوڑ ہو جائے تاکہ بلاول زرداری پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کے ریاست مخالف بیانیے پر پیپلز پارٹی کو لا سکیں۔ چال اچھی ہے لیکن زرداری کی زندگی تک یہ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ زرداری اپنے پتے خود چلنے والے کھلاڑی ہیں۔ اپنی بساط خود بچھا کر دوسروں کو اپنا مہرا بنا کر چلنے والے زرداری اتنی آسانی سے کسی دوسرے کے مطابق چل کر اپنی سیاست کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی بیوقوفی ہرگز نہیں کریںگے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تینوں کھلاڑیوں کو ہی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔ تینوں جانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ پچھلے پچاس سال میں کیا کچھ کیا۔ کیسے اس کی جڑیں کھوکھلی کر کے اپنی حکمرانی کو جمہوریت کا نام دیے رکھا۔ ان کو معلوم ہے کہ ہم میں سے جسے بھی جہاں اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا، وہ کھیل جائے گا۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی دونوں کھلاڑی اپنی بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر عمران خان پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ فوج کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کر رہے ہیں کہ کسی طرح فوج تنگ آ کر پوچھ لے کہ ان حملوں کو روکنے کی کیا قیمت چاہتے ہے؟ چونکہ یہ ہو نہیں رہا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ 31 دسمبر تک جو استعفے آنا چاہئیں تھے، وہ معاملہ توالٹ رخ اختیار کرتا رہا ہے اور اب اپوزیشن نے حکومت کو 31 جنوری تک کی ڈیڈلائن دیدی ہے۔ تمام ارکان کے استعفے نہ ان کو ملے ہیں، نہ ملیں گے۔ یہ ان کو بھی معلوم ہے کہ جیسے جیسے انہوں نے اپنے ارکان اسمبلی پر دباؤ ڈالا، ان میں مزید پھوٹ پڑے گی۔ مولانافضل الرحمن اور ن لیگ کا "اصولی موقف" انتہائی دلچسپ ہے۔ بقول ان کے، یہ اسمبلی تو جعلی ہے مگر (ہم یہاں آنے کیلئے اتنا تڑپ رہے ہیں لہٰذا) ہم ضمنی اور سینٹ انتخابات ضرور لڑیں گے۔ عمران خان جو 2018 ء میں پونے دو کروڑ ووٹ لے کر منتخب ہو کر آئے مگر چونکہ وہ سیاستدان کا بیٹا نہیں لہٰذا وہ "سلیکٹڈ" ہے۔ عوام اب یہ سارے حربے سمجھ چکی ہے۔ حکومت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف اپنی کارکردگی سے ہے۔ آج کل سردیوں میں جو گیس کی لوڈ شیڈنگ ملک کے مختلف حصّوں میں شروع ہو چکی ہے، اس پر لوگ عمران خان کو کوستے ہیں، نہ کہ ان کے "قابل" وزیر اور مشیر کو، جن کی قابلیت کی وجہ سے اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا رہا۔ یہی حال دیگر وزارتوں کا بھی ہے۔ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس وزارت کا قلمدان کس کے ہاتھ میں ہے، غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ پاکستان کے مسائل حل ہونے کی طرف آئے یا نہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بے گھر افراد کے لئے پناہ گاہیں اور لنگرخانے بنائے گئے ہیں، جن پر سابق حکمرانوں نے خوب مذاق بھی بنایا لیکن اس کی قدر وہی بے گھر، بے سہارا جان سکتا ہے، جس نے یہ لاچاری کا وقت بے سروسامانی کے عالم میں کاٹا ہو۔ اب ضرورت اس سفید پوش طبقے کے لئے کچھ کرنے کی ہے، جس نے تبدیلی اور آسودگی کا خواب دیکھا تھا۔ باقی رہ گئی این آر او کے متلاشیوں کی بات تو وہ اگر اسی ڈگر پر چلتے رہے جس پر نواز شریف نے ان کو 20 ستمبر سے لگا رکھا ہے تو وہ عمران خان کی بجائے اپنی ہی سیاسی قبر کھود لیں گے۔ رہے نام اللّہ کا۔ پاکستان زندہ باد۔