نواز شریف اور عمران خان کے طرز حکومت میں فرق کا باٹ چینی سکینڈل کے ترازو میں آ پڑا ہے۔2019ء کے آخر میں اچانک چینی مہنگی ہو گئی۔ معلوم ہوا برآمد کر دی گئی ہے۔ شوگر ملز کے سارے مالکان بددیانت نہیں ہوں لیکن جو لوگ سیاست میں ہیں ان کا کاروبار کسی نوع کا ہو‘ ہمیشہ مشکوک رہتا ہے۔ اس بار بھی حالات مشکوک تھے۔ عمران خان کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے طعنے دیے کہ بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لگانے والے عمران خان اپنے اتحادیوں اور دائیں بائیں بیٹھے لوگوں کو بچانے کے لئے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں، ایسا اشتعال دلانے والے جانتے تھے کہ رائج سیاسی روایات کے فریم میں یہ سکینڈل چند ووٹوں سے بنی حکومت کیلئے کیا حیثیت رکھتا ہے۔ آخر معاملہ ایف آئی اے کو سونپا گیا۔ سوال اٹھا کہ ساری بیوروکریسی عمران خان سے تنگ ہے، کچھ افسران سے پردیس کاٹ کر آنے والے شہباز شریف رابطہ کر رہے ہیں، اب بھی خود کو وزیراعلیٰ سمجھ کر معاملات میں دخل دینے کی کوشش میں ہیں۔ پھر کسے یہ کام سونپا جائے۔جے آئی ٹی والے افسر واجد ضیاء کو انچارج بنایا گیا، واجد ضیا پناما سکینڈل کے تفتیشی افسر تھے۔ ان کی دیانتداری پر عمومی سطح پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ اس رپورٹ میں 2014ء سے 2019ء کے درمیان چینی کی برآمد پر ری بیٹ اور حکومت سے سبسڈی لینے کے الزامات کا پتہ بھی لگایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لگ بھگ 5برس کے دوران شوگر ملز مالکان 25ارب روپے کی غیر قانونی سبسڈی اور ری بیٹ چینی برآمد کرنے کی مد میں وصول کر چکے ہیں جبکہ یہ چینی برآمد کرنے کی بجائے مقامی منڈیوں میں ہی فروخت کر دی گئی۔ یہ ایک بڑا سکینڈل ہے جس میں جہانگیر ترین ‘ چودھری منیر، شمیم احمد اور خسرو بختیار سمیت کئی اہم خاندانوں کا نام آیا ہے۔ شریف خاندان کانام ہے اور آصف علی زردای کی فرنٹ کمپنی سمجھے جانے والے اومنی گروپ کی شوگر ملز بھی اس میں ملوث بتائی گئی ہیں۔ عمران خان جس ڈھب کے آدمی ہیں مشکلات ان کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست اس لئے کی جاتی ہے کہ خود کو قانونی عمل سے بچایا جا سکے۔ اب اگر وہ اپنی جماعت کے اہم رکن یا ان اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں جنہوں نے حکومت کو سہارا دے رکھا ہے تو خدشہ ہے کہ ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ ایسا معاملہ ایک بار پہلے بھی سامنے آ چکا ہے۔ نواز شریف کی حکومت تھی۔ ستمبر 2015ء کی بات ہے۔ ان شوگر ملوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی جو چینی کی برآمد پر سبسڈی لینے کے سکینڈل میں ملوث تھیں۔ پشاور کے کسٹم کلکٹریٹ کے دیانتدار افسران نے دو گوداموں پر چھاپہ مارا۔ پہلے گودام میں چینی کے 7ہزار تھیلے جبکہ دوسرے میں ریفائنڈ شوگر کے 3ہزار تھیلے موجود تھے۔ کاغذات میں یہ چینی افغانستان برآمد ہو چکی تھی۔ 7ہزار تھیلوں پر چینی تیار کرنے والی میسرز چودھری شوگر ملز کا نام چھپا ہوا تھا۔ یہ شوگر ملز نواز شریف ‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ہے۔ گودام کو سیل کر دیا گیا اور موقع سے آئین اللہ نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ 3ہزار تھیلے والے ذخیرے کا کوئی مالک فوری طور پر سامنے نہ آ سکا۔ دونوں گوداموں سے برآمد ہونے والے تھیلوں پر نمایاں الفاظ میں لکھا تھا: Only for Export of Afghanistanان دنوں خفیہ اداروں کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ افغانستان کو برآمد کرنے کے نام پر چینی کا بڑا حصہ مقامی منڈیوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ سکینڈل میں ملوث مالکان ایک طرف ملک میں چینی کی قلت پیدا کر کے مقامی قیمتیں بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف برآمد کا ڈھونگ رچا کر سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹور رہے تھے۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ طورخم بارڈر پر تعینات PRALسٹاف نے اس جعلسازی میں مدد فراہم کی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس عملے کو سیاسی سفارش پر لگایا گیا ہو گا۔ گرفتار افراد کے قبضے سے جعلی GDS(گڈز ڈیکلریشن) برآمد ہوئیں۔ PRAL (پاکستان ریونیو آٹومیشن کمپنی)کا ڈیٹا چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 18جی ڈیز میں ٹمپرنگ کی گئی ہے۔ ان پکڑی گئی 18برآمدی دستاویزات کے مطابق چینی کی برآمد کا جعلی کاروبار کرنے والوں میں چودھری شوگر ملز‘ بوانی شوگر ملز‘ اشرف شوگر ملز‘ تھل انڈسٹری کو آپریشن اور ہنزہ شوگر ملز شامل تھیں۔ اس سارے معاملے میں ملک کو 2.439ملین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ کسٹم افسران نے اپنا کام مکمل کر کے معاملے کی ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دیدی۔ معاملہ عدالت میں گیا، وہاں شوگر ملز کو ریلیف مل گیا، کسٹم نے پھر اپیل کر دی۔ اس کے بعد خبر نہیں اس معاملے کا کیا بنا۔ پاکستان میں 50فیصد شوگر ملز سیاستدانوں کی ہیں۔ معاملہ 2004-6ء کے دوران چینی کی قیمتیں بڑھنے کا ہو ‘ اگست 2007ء میں نیب کی جانب سے چینی سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا ہو یا پھر 2020ء میں واجد ضیا کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرنے کا ہو‘ مخصوص خاندان‘ مخصوص ملز اور مخصوص طریقہ کار دکھائی دیتا ہے۔ سارا کام مہنگے وکیلوں‘ تابعدار سرکاری افسران اور عیار منیجروں کے ذریعے جاری ہے۔ خزانہ سرکار کا لٹ رہا ہے‘ قرضوں کا بوجھ عوام کی گردنیں توڑ رہا ہے‘ جو لوگ ایمانداری سے کاروبار کر رہے ہیں روز ان کا خون خشک ہوتا ہے۔ نواز شریف ایک تاجر تھے‘ وہ اور ان کا خاندان آج بھی کئی ایسے معاملات میں پھنسا ہوا ہے جو ان کی کاروباری دیانتداری پر داغ ہیں۔ عمران خان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں ان کے لئے ہر روز ایک نیا چیلنج پیدا ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں یہ سچ ہے یا کسی وہمی دماغ کا خیال کہ واجد ضیا کی رپورٹ سانپ کے منہ میں چھپکلی والی بات ہو گی۔ عمران خان کورونا سے لڑنے اور معاشی بحالی کے کام کے ساتھ یہ ثابت کرنے پر مجبور کئے جا رہے ہیں کہ وہ بلا امتیاز احتساب کا نعرہ سچ کر کے دکھائیں۔