کالم کی ذمہ داری سے تو جمعہ کی شام تک ہی عہدہ برآ ہو جاتا ہوں …کہ دفتری اور غیر دفتری ’’ہنگامہ خیزی‘‘ کا پتہ نہیں ہوتا کہ چھٹی کے دن بھی… نجانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ جائے، لیکن اللہ کا شکر کہ آج کافی دنوں کے بعد لان میں بیٹھ کر دھوپ دیکھنے کا موقع میسر آیا، ’’دھوپ دیکھنا‘‘ اس لئے کہ وہ جو نکھری، اجلی اور سنوری سی دھوپ ایک روز پہلے، یعنی جمعہ کو تھی، آج ہفتہ کو اس سے تو آنکھ مچولی ہی ہوتی رہی۔ بہرحال ہمارا خطہ خوش قسمت ہے کہ اسے موسموں کا رچائو خوب میسر ہے۔ ٹھٹھرتی سردی اور بھرپور گرمی کے ساتھ، بہار اور خزاں کی اداسی دستیاب ہوتی ہے… اور خوب ہوتی ہے، وگرنہ تو قطب شمالی کہ جہاں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن کہ ستمبر سے لیکر مارچ تک سورج ہی نہیں نکلتا ،یعنی رات کا سماں ہوتا ہے ،غالبافیض احمد فیض کی دلآویزی نے تو گردش لیل و نہار کا رونا روتے روتے اس کی تمناہی کرڈالی تھی۔ ؎ جی چاہتا ہے قطب شمالی میں جا بسیں تنگ آ گئے ہیں روز کے شام و سحر سے ہم بہرحال موسموں کی اپنی ہی لذت اور راحت ہوتی ہے ۔جسکی شدت اور حدت ہماری زندگی کیلیے طاقت اور توانائی کا سر چشمہ ہی تو ہے ،اور حیات کا سرنامہ بھی ۔اور پھر ان کے ساتھ ہماری کتنی ہی یادیں اور باتیں بھی تو وابستہ ہوتی ہیں، ایسی ہی یادوں بلکہ شاموں کے بارے میں شعیب بن عزیز نے کہا تھا ؎ یوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں بہرحال زندگی ازخود دھوپ اور چھائوں کے درمیان رہنے… بلکہ صبح و شام اور عروج و زوال کے انہی سلسلوں کا نام ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی حالت ہمیشہ نہیں رہ سکتی، کبھی ہنر اور کمال کے بغیر ہی سطوت اور شکوہ میسر آ جاتا ہے اور کبھی کوتاہی اور نالائقی کے بغیر ہی ابتلا اور مصائب۔ ’’اصول تغیر‘‘ ہی کائنات اور اس حیات ظاہری کا سب سے بڑا سرنامہ ہے۔ کسی بادشاہ نے ایک درویش کو کاغذ و قلم تھماتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا جملہ لکھو کہ جو اداس ہے وہ شاداب …اور جوخوشحال ہے وہ فکرمند ہو جائے، درویش نے لمحہ بھر کیلئے بادشاہ کی طرف دیکھا اور پھر کاغذ پر مختصر مگر جامع سطر تحریر کردی، بادشاہ پڑھ کر اداس اور قیدی سن کر مطمئن ہو گیا۔ فقیر نے جو لکھا وہ یہ تھا ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘ بہرحال… وقت کی تیز رفتاری اور سبک خرامی ایسی کہ ماہ و سال کے گزرنے بلکہ اڑنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ نبی اکرمﷺ نے اسے قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب قیامت قریب ہو گی تو ماہ و سال سے برکت اٹھالی جائے گی۔ سال… ایک ماہ کی طرح ہو جائیں گے اور ماہ ایک ہفتے کی طرح۔ ہفتہ ایک دن کی طرح، ایک دن …ایک گھڑی کی طرح ۔۔۔ اور ایک گھڑی چشم زدن میں ختم ہو جائے گی۔ علم قبض کر لیا جائے گا اور فتنے رونما ہوں گے۔اسی لیے تو بزرگ کہتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں ماہ و سال نہیں ۔۔۔بلکہ ماہ وسال میں زندگی کو سمونا چاہیے۔ عجب بات تو یہ ہے کہ آج ہم فقر کے نام پر دنیا سمیٹنے کے درپے ہیں۔ خانقاہوں کے ماڈل اور درویشی کا ’’وارڈ روب‘‘ جبوں، عماموں اور دستاروں کے لئے بھی فیشن ڈیزائنر میدان عمل میں ہیں۔ جلوت کی ہوس نے خلوت کی برکات ہی پائمال کر دی ہیں، سکوت شب کی عنایات کو ’’آن ایئر‘‘ بیان کرکے، اپنی تہجد کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے ،بلکہ نوبت تو یہاں تک ہے کہ اگر ’’غربت اور ولایت‘‘ باہم ہوں، تو تصوف و طریقت سے دستبردار ہو کر دنیا اور زرو جواہر کو ترجیح دی جائے۔ اس دور کا کیا تذکرہ… ایک ہزار سال قبل حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے عہد کے احوال لکھتے ہوئے کشف المحجوب میں تصوف کے دعویداروں کو تین واضح گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرما دیا کہ ایک ’’صوفی‘‘ ہوتا ہے، جو خود سے فانی اور حق کے ساتھ باقی ہو۔ دوسرا متصوف، جو مجاہدے اور تکلف سے صوفیا کی صف میں شامل ہو۔ جبکہ تیسرا گروہ مستصوف جو دنیاوی عزت، منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنائے اور اسے صوفیا کی حقیقی منازل و مقامات کی کچھ خبر ہو۔ یہ وہ ’’جعلی صوفی‘‘ ہے جو صوفیا کے نزدیک حقیر مکھی کی طرح ہے۔ جو آلودگی پسند ہے اور لوگوں کے لئے بھیڑیا ہے جو ان کا مال ہتھیا لیتا ہے،یعنی ’’ تہذیب نفس‘‘کی بجائے ’’خیانت نفس‘‘ کی طرف رغبت ہے۔ حالانکہ اخلاق و معاملات کی پاکیزگی ہی، صوفی کے کردار کا وہ جوہر ہے، جو اسے گردو پیش سے ممتاز کرتی ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہی بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ نے کسی درویش سے کہا کہ مجھ سے کچھ مانگ، درویش نے جواب دیا: میں اپنے غلام کے غلام سے کیا مانگوں۔ بادشاہ نے کہا… یہ کیا کہا؟ غلاموں کا غلام، درویش نے جواب دیا، ہاں میرے دو غلام ہیں، ایک حرص اور دوسرا آرزو… اور وہ دونوں تیرے آقا ہیں۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدینؒ اولیا فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ الاسلام بابا فرید الدینؒ اپنے حجرے میں انتہائی بیتابی کے ساتھ، چہرہ آسمان کی طرف اٹھائے یہ شعر پڑھ رہے تھے ؎ خواہم کہ ہمیشہ در رضائے تو زیم خاکی شوم و بذیر پائے تو زیم مقصود من خستہ زکونین توئی ازبہر تو میرم و برائے توزیم ’’میری تمنا ہے کہ ہمیشہ آپ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کروں (اور) آپ کے قدموں کی خاک بن کر رہوں۔ دونوں جہاں میں مجھ خستہ حال کا مقصود آپ ہی کی ذات ہے، میرا مرنا اور جینا آپ ہی کے لئے ہے‘‘۔یعنی شریعت میں اللہ تعالیٰ ’’معبود‘‘ہے ۔طریقت اور سلوک میں اللہ تعالیٰ’’مقصود‘‘ہے۔اللہ سے حقیقی تعلق کا پیدا ہوجانا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔اور جب اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں جاگزیں ہو جائے پھراس کی زندگی کا سانچہ ہی بدل جاتا ہے، دل کی وادیوں میں کیف و سرور کے چشمے رواں اور کائنات کے سربستہ راز سامنے بے نقاب ہونے لگتے ہیں، یہی وہ مقام ہے جہاں دین و فقر دنیاوی شہنشاہوں سے بے نیاز اور شکوہ فقیر کے سامنے جلال سنجر بے وقعت نظر آنے لگتا ہے۔ بقول حضرت اقبال ؎ خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر