محمد بن سیرین ؒ کے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے اقوال میں سے ایک یہ ہے : دین سب سے زیادہ قیمتی ہے ۔ دیکھ لیا کرو، کس سے لے رہے ہو ۔ آپ کس سے لیتے ہیں ؟ جنابِ وزیرِ اعظم ، کس کی سنتے اور مانتے ہیں؟ کون کون آپ کے اتالیق ہیں؟ سوچے سمجھے بغیر اظہارِ خیال اور وہ بھی ایسے نازک موضوع پر ، آپ نے یہ کیا کیا؟ انتخابی مہم کے دوران آپ نے لا تعداد وعدے کیے تھے ۔ آئی ایم ایف کیا، کسی بھی ملک سے آپ قرض نہ مانگنے جائیں گے۔ بیرونِ ملک سے لوگ پاکستان میں نوکریاں کرنے آیا کریں گے ۔ ’’میں آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کر کے دکھائوں گا ‘‘ ۔ کراچی کے سمندر سے گیس نکلنے کا امکان دس فیصد سے زیادہ نہ تھا۔ یہ آپ کو بتا دیا گیا تھا لیکن آپ نے امید پیدا کی اور نتیجہ بے پناہ تنقید ہی نہیں ، تمسخر اور آپ کے حامیوں میں گہری مایوسی ۔ جرمنی اور جاپان کو آپ نے پڑوسی بنا دیا۔ گولان کی پہاڑیاں فلسطین کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ جب خاموش رہنا ہو ، آپ خاموش کیوں نہیں رہ سکتے ؟ ہر گیند کو کھیلنا کیا ضروری ہے ؟ ہر خیال کا برملا اور بے باک اظہار کیوں لازم ہے ؟ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: جس نے کبھی یہ نہ کہا ’’میں نہیں جانتا ‘‘ وہ چوٹ کھانے والی جگہ پر چوٹ کھا کر رہے گا۔ جب ذاتی طور پر آپ سے ناچیز نے درخواست کی کہ تصوف کے موضوع پر بات کرنے سے آپ کو گریز کرنا چاہئیے تو آپ برا مان گئے ۔ دوستوں سے میری شکایت کی۔ یہ خاکسار آج بھی اپنی اس رائے پر قائم ہے کہ جن علمی عنوانات پر آدمی نے کافی دماغ سوزی نہ کی ہو ، کھلے عام ان پر حتمی انداز میں گفتگو نہ کرنی چاہئیے ۔ جس روحانی یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد آپ رکھ آئے ہیں ، وہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں ایک کمرہ تک نہیں ۔ ان دیہات کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک کھرب پتی پراپرٹی ڈیلر یہاں ایک شہر آباد کرنا چاہتا ہے ۔ اس لیے کہ سیدھی سڑک نکالی تو میر پور کا منگلا ڈیم دس بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا،ایک پرفضا اور مہنگا مقام۔ بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے سے وہ اربوں روپے کمانے کا آرزومند ہے ۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایک خطیر رقم اسے حکومت کو ادا کرنا ہے ۔ یونیورسٹی کی عمارت بن چکتی ۔ احتیاط کے ساتھ اساتذہ کا انتخاب کر لیا جاتا کہ ماہرین خال خال ہیں تو سرپرستی کا جواز ہوتا۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نام سے ان صاحب نے ایک عظیم الشان انسٹی ٹیوٹ تعمیر کیا تھا۔ ا ب اس کا نام بدل دیا ہے ۔ شعبدہ بازی شاید اس کی ضرورت ہے مگر آپ کا اس سے کیا تعلق؟ سندھ اس کی چراگاہ ہے ، جہاں اس کے مربی اقتدار میں ہیں ۔ دہشت گرد الطاف حسین نے کراچی شہر اورقومی میڈیا کو یر غمال بنا رکھا تھا تو حیدر آباد میں اس کے نام پر ایک یونیورسٹی قائم کرنے کاموصوف نے اعلان کیا تھا۔پھر وہ ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ اس بات پہ آپ کیوں غور نہیں کرتے کہ آپ کے اردگرد غیر ذمہ دار لوگوں کے جھمگٹے ہیں ۔ موقع پرست ہر کہیں ہوتے ہیں ، ہر حکومت میں اپنے مفاد کے لیے وہ حکومتوں کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بار ہا آپ نے فریب کھایا ،کب تک،مگر کب تک؟ جب سے حکومت کا ادارہ وجود میں آیا ہے بلکہ جب سے آدمی اس زمین پر آباد ہے ، طفیلی ہر کہیں موجود رہتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ با رسوخ لوگوں کے حاشیہ بردار !یہ سلفیاں بنانے والے ۔ اہم لوگو ںکے ساتھ تصاویر کھنچوا کر گھروں میں سجانے والے ۔ دانا لوگ ان سے محتاط رہتے ہیں ، آپ کیوں نہیں ؟ کراچی کے فساد کو تحلیل کر دینے والے بہادر اور صداقت شعار جنرل سے اتفاقاً ایک ملاقات ہوئی ۔ کراچی کے ایک خوش خیال تاجر ہمراہ تھے۔ ایک سادہ سا آدمی۔ تصویر بنانے کی اس نے فرمائش کی تو جنرل نے کہا: ازراہِ کرم اگر آپ دیوار پر اسے آویزاں نہ کریں ۔ وہ بات کو پا گیا ۔ فوراً ہی گریز کا فیصلہ کیا ۔ لکھنا آج دشوار ہے ۔ اصل موضوع پر بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا ۔ دل دکھ سے بھرا ہو ا۔ بات سوجھتی ہے مگر پیرایہ اظہار نہیں ۔ کھل کر کہیں تو اندیشہ ہائے دور دراز ، خاموش رہیں تو درد بے قابو ہونے لگتا ہے ۔ محمد علی جوہر مولوی تھے اورنہ ان کے برادرِ بزرگ شوکت علی۔دونوں کو مگر مولانا کہا جاتا۔ رئیس المتغزلین حسرت موہانی کو بھی ، جن کاشعر یہ ہے کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد سے نخوت کے سوا شغل بیکار ہیں سب تیری محبت کے سوا ’’مولانا ‘‘ تب تکریم کا لفظ تھا ، احترام کا اظہار ۔ مگر قائدِ اعظم ، انہیں ’’مولانا ‘‘ کہا گیا تو آپ نے ٹوک دیا، انکار کر دیا۔ فرمایا: میں ایک سیاسی آدمی ہوں ، آپ کا روحانی پیشوا نہیں ۔ پھر اور بھی انکسار سے کام لیا اور ارشاد کیا :تمہارے ایما پر میں شطرنج کھیلتا ہوں ۔ اقبالؔ بھی ایسے ہی تھے ۔ سب سچّے اور کھرے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔اپنی نفی کرنے والے ،کہا کہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایما ں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتاہے گفتار کا غازی تو یہ بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا دعویٰ حماقت ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ۔ شاید افلاطون نے کہا تھا: آخر کار مجھ پر یہ کھلا کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔ کم مائیگی کا احساس ہی طالبِ علم کا مستقبل منور کر تاہے ۔ سرکارؐ دعا کیا کرتے ’’رب زدنی علما‘‘ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرمادے ۔ اپنے اصحاب سے آپ کبھی سوال کرتے۔ مثلا یہ کہ کیا تم جانتے ہو کہ کائنات سے زمین کا تناسب کتنا ہے ؟ تو وہ جواب دیتے ’’اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جاتے ہیں ‘‘ یہ تو خیر ایک بہت ہی پیچیدہ اور بلند تر نکتہ تھا ۔ عام سے استفسارات پر بھی وہ یہی کرتے۔ اسی لیے کبار اہلِ علم ان میں اٹھے ۔ ایسے کہ دنیا کبھی ان کی مثال پیش نہ کر سکے گی ۔ خطرناک ہے ،اپنی برگزیدگی کا احساسِ خطرناک۔ کل 9شوال محمد بن سیرینؒ کا یومِ پیدائش تھا۔ اسلام کی تاریخ کے عظیم ترین سکالرز میں سے ایک ہیں ۔ جناب انس بن مالکؓ کے صحبت یافتہ ، انس کے آزاد کردہ غلام۔ والدہ ماجدہ نے سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے گھرمیں سالہا سال بتائے، ان کی کنیز تھیں ۔خوابوں کی تعبیر کے آپ امام مانے جاتے ہیں ۔ حدیث میں بھی کمال حاصل تھا ۔ اقوالِ رسولؐ میں سند کا معیار مقرر کرنے میں ان کا کردار تھا۔ جنابِ انس بن مالک نے کہا تھا: دیناسے اٹھوں تو محمد بن سیرین مجھے غسل دیں ۔ اس جلیل القدر استاد کے علاوہ امام حسن ؓ، جناب عبد اللہ بن مسعود ؓ اور جناب عبد اللہ بن عمرؓ سے بھی تعلیم پائی ۔ انہیں صادق القول کہا جاتاہے ۔ ہمیشہ سچی بات کرنے والا آدمی ۔ کہا گیا کہ وہ اماں حسن بصریؒ سے بھی زیادہ محتاط تھے ۔کوئی شرعی سوال پوچھا جاتا تو چہرے کا رنگ بدل جاتا ۔ گویا ایک بوجھ آن پڑا ہو۔ محمد بن سیرین ؒ کے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے اقوال میں سے ایک یہ ہے : دین سب سے زیادہ قیمتی ہے ۔ دیکھ لیا کرو، کس سے لے رہے ہو ۔ آپ کس سے لیتے ہیں ؟ جنابِ وزیرِ اعظم ، کس کی سنتے اور مانتے ہیں؟ کون کون آپ کے اتالیق ہیں؟