وزیر اعظم عمران خان نے بدعنوانی کے خاتمہ کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے بے نامی جائیداد کی نشاندہی کرنے والے کے لئے 10فیصد رقم بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ بے نامی اثاثوں کی ضبطی سے جو رقم حاصل ہو گی اسے احساس پروگرام فنڈ میں ڈال دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ سابق حکمران عوام کے پیسے ذاتی معاملات پر خرچ کرتے رہے‘ قوم ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے مقروض ہوتی رہی اور ان لوگوں کے اثاثے بڑھتے رہے۔ بھارت میں 2016ء میں بے نامی جائیداد رکھنے پر قانونی پابندی لگائی گئی۔ نریندر مودی کی سابق حکومت کے دور میں امتناع بے نامی معاملات کے قانون برائے 1988ء کا نام بدل کر بے نامی پراپرٹی انتقال قانون مجربہ 1988ء کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کی رو سے اگر کسی شخص کی بے نامی پراپرٹی کا انکشاف ہوتا ہے تو اسے کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ بے نامی پراپرٹی کے مالک کو پراپرٹی کی قیمت کا پچیس فیصد بطور جرمانہ جمع کرانا ہو گا۔ مزید برآں اگر کوئی شخص اس سلسلے میں غلط معلومات فراہم کرے تو اس کے لئے مزید سزا مقرر ہے۔ پاکستان میں اس سلسلے میں بنیادی کام ہونے والا ہے۔ محکمہ مال کا ریکارڈ پوری طرح مرتب اور کمپیوٹرائزڈ نہیں۔ سرکاری عملہ قانون شکنوں کو تحفظ فراہم کرتا رہا ہے اور زمین کا لین دین کرنے والے افراد قانون شکنی میں بے باک ہیں۔ پاکستان میں بدعنوانی ‘ ٹیکس چوری یا جرائم سے جمع کئے گئے پیسے کو سب سے زیادہ زمین خریدنے پر لگایا گیا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی حیران کن ترقی میں ان افراد کا کردار بنیادی ہے جو کسی سرکاری منصب پر فائز ہیں اور اپنی دولت کو بیوی‘ بچوں اور عزیز رشتہ داروں کے نام کر رکھا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے بدعنوانی کے لین دین میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس رقم کا بڑا حصہ بے نامی پراپرٹی پر خرچ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں ایک معمولی آمدن والا شخص مہنگی گاڑیوں پر سفر کرتا اور عالیشان گھروں میں رہائش کرتا ہے۔ ٹیکس حکام جانچ پڑتال کرتے ہیں تو کوئی چیز ملکیت میں ثابت نہیں ہوتی۔ طرز زندگی بھی پرتعیش ہوتا ہے۔ اس رواج نے پورے سماج کو آلودہ کیا اور معاشرے میں کرپشن کے لئے قبولیت بڑھتی گئی۔ ہم اپنے اردگرد گلی‘ محلے اور علاقے کا جائزہ لیں تو ایسے کچھ افراد لازمی مل جائیں گے جنہوں نے بے نامی جائیداد بنا رکھی ہے۔ پورے ملک میں ایسے افراد کی تعداد کئی لاکھ ہو گی۔ ایسی بے نامی پراپرٹی کی مالیت جانے کتنے کھرب روپے ہو۔ یہ بے نامی املاک اگر باقاعدہ اصل خریدار کے نام ہو تو ریاستی خزانے میں کئی سو ارب روپے کا ٹیکس ہر سال جمع ہو۔ بے نامی جائیداد والے چونکہ ریاستی قوانین کو دھوکہ دے کر املاک خریدتے ہیں اس لئے ان کے دل میں ایک بات بیٹھ جاتی ہے کہ ریاست ان کی دولت چھین نہ لے۔ یہ خوف انہیں ہر وہ کام کرنے پر اکساتا ہے جو ریاست کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔ اندازہ لگائیے نمود و نمائش کا کلچر کیسے پروان چڑھا‘ تعلیمی اداروں میں امراء کی اولاد جو بدمعاشیاں کرتی ہے اس کے پس پشت بدعنوانی سے حاصل روپیہ ہوتا ہے۔ یہ طبقہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے ۔یوں سارا معاشرہ لاقانونیت کی زد میں آ جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ٹیکس اہداف میں سب سے بڑی رکاوٹ ایف بی آر کا محکمہ خود ہے کیونکہ شہری ایف بی آر پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ محکمہ مال کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک مخصوص طریقے سے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے مطمئن بیٹھے رہتے ہیں۔ ملک کی معاشی حالت صرف صنعت و زراعت کی پیداوار سے بہتر نہیں ہوتی فی زمانہ ہر مہذب ریاست میں شہری اپنی آمدن کا بڑا حصہ بنیادی سہولیات کی خاطر ریاست کو ادا کرتا ہے۔ یورپ کی ریاستوں میں صحت‘ تعلیم اور سماجی بہبود کی جن سہولیات کے ہم دلدادہ ہیں وہ سب شہریوں کے ادا کئے گئے ٹیکس کا نتیجہ ہیں۔ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں پسماندگی کے ساتھ جینا نہیں چاہتیں۔ ہماری ترقی اور بہتر طرز زندگی میں رکاوٹ وہ طبقہ ہے جو جائز ناجائز ذرائع سے کمائی دولت سے خود کو مضبوط اور آسودہ کرتا جا رہا ہے جبکہ ملک کی اکثریتی آبادی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سماجی انصاف اور بدعنوانی کے خاتمہ کو اپنی ترجیحات قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اب تک بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے جو اقدامات کئے ہیں ان سے بعض حلقوں میں پریشانی بڑھی ہے مگر ان اقدامات کا اثر ریاستی معاملات میں بہتری کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد عمران خان نے وسل بلور ایکٹ متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا یعنی بدعنوانی کے معاملے کی بمعہ ثبوت نشاندہی کرنے والے کو بدعنوانی کی رقم یا اس سے خریدی گئی املاک کا کچھ حصہ بطور انعام دیا جائے گا۔ بے نامی جائیدادوں کے معاملے میں ثبوت دینے والے کے لئے دس فیصد انعام کا اعلان ایک دلکش ترغیب ہے۔ اس طریقے سے غیر قانونی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور معاشرے میں بدعنوان افراد کا اثرورسوخ کم کیا جا سکے گا ۔تاہم اس ضمن میں کچھ احتیاط ضرور پیش نظر رکھی جانی چاہیے۔ ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے سے دشمنی کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ پھر اس بات کا اہتمام بھی ضروری ہے کہ ثبوت فراہم کرنے والے کی شناخت ہر صورت پوشیدہ رہے۔ وزیر اعظم کے اعلان کردہ طریقہ کار کے مطابق اگر بے نامی جائیدادوں پر ریاستی خزانے میں رقوم جمع ہونے لگیں تو ریاست بے آسرا اور مفلس طبقات کی بحالی کے لئے قابل قدر کام کرنے کے لائق ہو جائے گی۔