یہ تو طے ہے کہ گذشتہ کئی برسوں پر محیط متعدد معاشی اور معاشرتی عوامل کی بناء پرپاکستان کی مڈل کلاس بدل چکی ہے۔سوال مگر یہی تھا کہ کیا معاشرے میں ظہور پذیر ہونے والی اس تبدیلی کی حدت اب تک نچلے طبقات تک بھی پہنچی ہے یا نہیں۔ بیس سیٹوں پر ہونے والے انتخابات نے بہت سراحت کے ساتھ ہمیں بتایا ہے کہ صرف بڑے شہروں تک محدود متوسط طبقے کے اندر ہی نہیں، نسل در نسل حکمرانی کرنے والے خاندانوں، الیٹ طبقات اور ان سے منسوب مالی بد عنوانیوں کے خلاف نفرت قریہ قریہ گلیوں بازاروں میں اتر چکی ہے۔ بارشوں میں، کیچڑ میں، آگ برساتے موسم میں ،ہر طبقے کے پاکستانی عمران خان کے جلسوں میں امنڈتے چلے آئے۔ عمران خاں تو محض ایک فرد کا نام ہے جسے حالات کی بے کراں لہروں نے یوں اچھالا کہ محرومیوں کے مارے انسانوں نے اسے اپنا رہبر و رہنماء مان لیا۔ اب عمران خاں ہوں نہ ہوں،بڑھتے طوفان کا رخ موڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ سمجھتے ہیں،مڈل کلاسیوں کو دھمکانا ریاست کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لبرٹی چوک میں اکٹھا ہونے والوںپر ایک چلتی ویگو سے ہوائی فائرنگ کر کے سراسیمگی طاری کی جا سکتی ہے۔ رات کے پچھلے پہر چار وردی پوش دروازے کو کھٹکھٹا دیں تو پورے گھرانے کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایک تین ستارہ ریٹائرڈجرنیل کی پنشن اور مراعات ضبط کر لی جائیں تو باقی ویسے ہی سمٹ کے بیٹھ جائیں گے۔پوش علاقوں میں بلندتختوں پر واقع پر سکون محلات کے سکوت میں تلاطم یوں بھی کسے پسند ہے؟ہما شما کس کھیت کی مولی ہیں۔ ریاست اپنی بے مہابا طاقت سے پوری طرح آگاہ ہے۔الیٹ گروہوں کو چھوڑ کر مگر پاکستانی اب بے کراں ہیں۔ عمران خاں ایک دیوانہ سر پھرا ہے۔اسلام آباد کے سرکاری گھر میں اصطبل کھلا۔ معززافراد ہاتھوں میں مشروبات لئے ہنستے کھیلتے ویڈیو ز بنا بنا کرسوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہے۔ عمران خاں مرکز، ایک صوبائی اور دو ریاستوں میں حکومتیں رکھنے کے باوجود گلی گلی دہائی دیتا رہا۔ ہمیں آپ کو اخلاقیات یاد کرواتا رہا۔ زرداری صاحب کھلکھلا تے ہنستے رہے۔عوام نے اس کے بیانئے کو ہاتھوں ہاتھ تو لیا مگرپورا سسٹم اس کے خلا ف تھا۔پورے سسٹم کو وہ چوٹ لگا رہا تھا۔ پورے کا پورا سسٹم آج بھی اس کے خلاف کھڑا ہے۔ افسوس تو ہمیں ان جمہوریت پسند لبرلز کی خاموشی پر ہے۔ انہی میں سے اکثر ہم جیسوں کوتاریخ، فلسفے اور ادب کی پٹاریوں سے جمہوریت ، انسانی حقوق اور اعلیٰ انسانی اقدار کے رنگا رنگ چورن نکال کر دکھاتے تو ہم جیسے انگلیاں منہ میں داب لیتے۔ ان کی علمیت اور اصول پسندی سے ہم مرعوب ہی جئے۔قانون کی حکمرانی اور شخصی آزادیوں کا درس جو دیتے نہیں تھکتے تھے، بالکل مگر ہم جیسے ہی نکلے ۔سیاست میں، انصاف کے سیکٹر میں، میڈیا میں پائے جانے والے زعم برتری میں گرفتار چڑچڑے خود پسند،باہم ستائش کے عادی،نفرت میں ڈوبے مغرب سے مرعوب اور عام پاکستانیوں کو حقارت سے دیکھنے کا عادی لوگ۔اب مڈل کلاس پاکستانیوں کو حقارت سے دیکھ رہے ہیں۔وہی پاکستانی جوخواب دیکھتے ہیں۔ انہی کے خلاف لکھ رہے ہیں، عمر بھر جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پالتے ہیں، پاکستانی سکولوں یونیورسٹیوں میں تعلیم دلواتے ہیں۔پھر انہی کو بے روزگار دیکھتے ہیں۔ جن کے زخموں پر آکسفورڈ میں ڈگریاں پانے والے نو دولتیئوں کی تصویریں پوسٹ کر کے نمک پاشی کی جاتی ہے۔ابھی کل ہی ایک صحافی ہتھکڑیاں پہنے ایک عدالت سے دوسری عدالت گھومتا رہا۔ کسی نے انسانی حرمت اور زبان و قلم کی آزادی کی دہائی نہیں دی۔ انگریزی اخبار نے تو کوئی اداریہ بھی نہیں لکھا۔انصاف کے مندر میں سے کسی نے تڑپ کر اپنے کسی منشی کو کوئی خط بھی ڈکٹیٹ نہیں کیا۔ایاز امیر کسی اور معاشرے میں ہوتا تو اس عمرکے اس حصے میں میں کچھ اور نہیں تو ایوانِ بالا کا اعزازی رکن مقر ر کر دیا گیا ہوتا۔ پوری مڈل کلاس اب سسٹم سے نبرد آزما ہے۔ وقت مگر بدل چکا ہے۔ کیا کبھی ضمنی انتخابات میں بھی کسی نے اس قدر جوش اور جذبے کے ساتھ ووٹ ڈالے تھے؟ کیا کبھی اس بڑی تعداد میں عورتیں اور نوجوان تڑپ کریوںگلیوں بازاروں میں نکلے تھے؟فضل الرحمٰن جو بھی کہیں، بھکر اور مظفر گڑھ جیسے شہروں اور دور دراز قصبوں میں بھی انسانوں کی رگوں میں خون اب جوش مار رہا تھا۔ خون تو ہم گھر بیٹھے ہوئوں کے دماغوں کی شریانوں میں بھی دھک دھک کر رہا ہے۔ یہ طے تھا کہ صوبہ ایک خاندان کے پاس رہے۔ محض ایک شخص نے جیسے سبھی کو بے لباس کر دیا ہو۔اسی رات دیرگئے، موضوع پر الفاظ ترتیب میں بیٹھنے سے انکاری رہے۔ انگلیوں کے پوروں سے خون ٹپکتا رہا ۔کہا تھا، خان صاحب ، پیسہ پھینکیں، کس معاشرے کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت کو مگر پیسے کی کیا حاجت ہے؟ چوہدری صاحب کی وفاداریوں کو مگر ہم اب عشروں سے جانتے ہیں۔ مرکز میں ایک سو سے کم نشستوں والی پارٹی حکمران ہے۔ قائدِ حزب اختلاف نے آج ہی ٹویٹ کیا ہے، ’ایک بندہ اور ٹوٹا، ایک زرداری سب پر بھاری‘۔پنجاب میں ایک بار پھر وہی ہوا جو سینٹ میں ہوا، جو بلوچستان کی اسمبلی میں ہوتا چلا آیاہے۔کل جو ووٹ کو عزت دینے کی صدا ئیںدیتے تھے،آج پنجاب میں وہی کھیل کھیلا گیا تو وہی چوہدری شجاعت کو ظہور الٰہی کا بیٹا ہونے پر داد دے رہے ہیں۔ مریم نواز نے تو علی الصبح ہی کہہ دیا تھا کہ کھیل اب وہی ہوگا جو ن لیگ سے بہتر کوئی نہیں کھیلتا۔کھیل کا سکرپٹ ایک روز قبل لکھا جا چکا تھا۔ کھیل کے کھلاڑی سرِ شام ہی میدان میں اتر چکے تھے۔ ن لیگ نے جو اعتراض اٹھانے تھے،سب کوپہلے سے معلوم تھے۔لفظ بلفظ خاص صحافیوں کی زبان پر تھے۔ کمال فیاضی سے زین قریشی اور دوسرے صاحب کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی گئی۔ تحریک انصاف والوں نے بھی ڈیسک بجائے۔ ایک خط کی باز گزشت تھی ،جو صرف ڈپٹی سپیکر کو ملا۔ووٹنگ کے عین بعد جو اُن کی جیب سے برآمد ہوا۔ آئین کی کتاب میں درج متعلقہ شق اورحال ہی میں ایک صدارتی ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، دونوں سادہ انگریزی میں لکھے گئے ہیں۔لفظ بلفظ پڑھ کر سنائے گئے۔ڈپٹی سپیکر صاحب نے مگر کہا، ’میں نہیں مانتا۔‘ دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ کھیل کے قوائد و نتائج طے شدہ تھے۔ افسوس کہ کسی اور نے نہیں خود سیاست دانوں نے اپنے ہاتھوں خود کو بے توقیر کیا۔ پاکستانی ایک بار پھر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہو گئے۔سپریم کورٹ کے دروازے نصف شب کھل گئے ۔ہم نہیں کہہ سکتے کل کیا ہو گا۔فی الحال تو ریاست نے رینجرز کو طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔سینوں میں بھڑکتی آگ کو آگ سے بجھانے کا ارادہ ہے۔