دو روز قبل بھارت سے کانگریس کے سابق ایم پی اور میرے بہنوئی کی کال موصول ہوئی۔وہ واضح الفاظ میں خبر دے رہے تھے کہ بھارتی لوک سبھا میں کشمیر کی تقسیم اور جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کی تیاری ہوچکی ہے مودی سرکار حسب سابق اس صدارتی بل کو تین ریاستوں ہریانہ،اڑیسہ اور مہاراشٹرا میں آنے والے انتخابات میں ووٹ لینے کے لئے کشمیر کارڈ کے طور پہ استعمال کرے گی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھیانک کریک ڈاون اور لاک ڈاون کے بعد بھارت کا اگلا قدم کیا ہوگا، اس سے حکومت پاکستان ناواقف ہوگی، یہ ماننے والی بات نہیں۔جس وقت بھارتی لوک سبھا میں یہ متنازعہ بل پیش ہوا اور کانگریس ہی نہیں بی جے پی کی اتحادی جماعتوں نے بھی پارلیمنٹ کی چھت سر پہ اٹھالی،اس وقت وزیر اعظم عمران خان شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے اور وزیر خارجہ حرم پاک میں احرام باندھے کشمیریوں کو ثابت قدم رہنے کی تلقین اور اللہ کی نصرت کی نوید سنا رہے تھے۔ مجھے علم نہیں کہ ہر دو شخصیات کے اس اطمینان کی کیا وجہ تھی اور انہوں نے پس منظر میں اس بارے میں کیا تیاری کررکھی تھی بہرحال عمران خان کے اپنے ان عالمی تعلقات کو بروئے کار لانے کا وقت آگیا ہے جو گزشتہ ایک سال میں انہوں نے استوار کئے ہیں۔ یہ اسی کا ہی نتیجہ تھا کہ صدر ٹرمپ نے کشمیر پہ ثالثی کی پیشکش کی۔ اس کے بعد بھارت پہ یہ اخلاقی دباو تھا کہ وہ امریکہ کی طرف سے اس پیشکش کا مثبت جواب دیتا۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ بھارت کبھی عالمی دباو کو خاطر میں نہیں لایا۔المیہ یہ ہے کہ عالمی برادری بھی زبانی کلامی مذمتی قراردادوں کے علاوہ عملی طور پہ بھارت کے ساتھ ہی کھڑی نظر آتی ہے۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پاکستان کے لئے سفارتی سطح پہ اخلاقی جیت ہی کہی جاسکتی تھی۔ عالمی ضمیر اور عالمی برادری جیسی اصطلاحات سے اس سے زیادہ کی امید نے کشمیر کے چناروں میں آگ بھڑکا رکھی ہے اور غزہ کی پٹی کے اندر محصور فلسطینیوں پہ زمین مزید تنگ ہوگئی ہے۔ جب امریکہ میں صدر ٹرمپ اور بھارت میں نریندرا مودی برسراقتدار آئے تھے، کشمیر اور فلسطین کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا اور جس دن ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا وہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا آغاز تھا۔صدی کی سب سے بڑی ڈیل اپنے آخری مراحل میں تھی۔ اردن کے ساتھ زمینوں کی لیز کی منسوخی پہ کشیدگی شروع ہوگئی تھی اور اس سے بھی پہلے شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوچکا تھا۔یہ طے تھا کہ جس کے ہاتھ دمشق لگ گیا اس کا قبضہ یروشلم پہ ہوگا۔ یہ کوئی اساطیری داستان نہیںاکیسویں صدی کی مذہبی عسکری حکمت عملی ہے جس پہ ٹرمپ اور مودی سرعت سے عمل پیرا ہیں۔ آپ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیلی جارحیت کی صرف ٹائم لائن دیکھ لیجئے۔حیرت انگیز مماثلت نظر آئے گی۔ایک فرق جو باقی تھا وہ اب ختم ہوجائے گا۔یعنی یہودی آباد کاری کا فلسطینی آبادیوں میں مسلسل نفوذ۔ اس مقصد کے لئے دنیا بھر سے یہودی تنظیموں نے نہ صرف فنڈنگ کی بلکہ یہودیوں کو وہاں بسایا اور آج تک بسا رہے ہیں۔اب یہی کام مذکورہ دونوں آرٹیکلزکے خاتمے کے بعد کشمیر میں ہوگا۔کشمیر کی متنازعہ پوزیشن اور اقوام متحدہ کی قرارداد سمیت پاک بھارت کے درمیان عالمی معاہدوں اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تزویراتی اشتراک نے بھارت کو کشمیر کی حصاربندی،سرحدوں کے اندر نسل کشی اور بڑے پیمانے پہ تشدد تک محدود رکھا۔اب چونکہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کا تزویراتی رشتہ ختم ہوچکا ہے، بھارت کو کھل کھیلنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔بھارتی لوک سبھا میں آرٹیکل 370اور 35 اے کی منسوخی کے بل کا مودی سرکار کی تین ریاستوں میںا نتخابات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کانگریس کا ایک حلقہ خیال کرتا ہے۔کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا، اس کی مسلم آبادی کو غزہ کی طرح ایک پٹی تک محدود کردینا اور پاکستان کی شہہ رگ پہ مکمل قبضہ مودی جیسے کسی شخص کے ہاتھوں ہی ممکن تھا جسے بی جے پی اور اتحادیوں جیسی انتہا پسند جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ بالکل اسی طرح آخری معرکہ یا آرماگدون سے قبل اسرائیل کے ارض فلسطین پہ مکمل قبضہ کی شروعات صدر ٹرمپ کے ہاتھو ں لکھی ہے جنہیں صیہنیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں پیش کئے جانے والا یہ بل جو آرٹیکل 370 اے کو ختم کرے گا،بھارتی آئین کے ہی آرٹیکل 371 کے ساتھ منسلک ہے جس کی رو سے اس قانون کو منسوخ کرنے کے لئے لوک سبھا کی تین چوتھائی اکثریت درکار ہوگی ۔ اب آپ کو سمجھ آجانا چاہئے کہ بی جے پی پہلے سے زیادہ سیٹیں لے کر کیوں برسر اقتدار آئی ہے۔ مجھے کانگریس سے کو ئی خوش فہمی نہیں اور ان کی بی جے پی کی اس موو پہ شورشرابے کی اپنی وجوہات ہیں۔ بھارت کے معروف ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی پہ معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹنینٹ جنرل (ر)جنرل شنکر پرشاد کو سننے کا اتفاق ہوا۔ میرا خیال تھا جرنیل ہونے کی بنا پہ وہ بی جے پی کی اس تحریک کی حمایت کریں گے لیکن انہیں اس بارے میں شدید تحفظات تھے اور یہی خدشات پاکستان کے لئے قابل اطمینان ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی منظوری کے بعد بدھ اکثریت والے لداخ( جو مسلم اکثریت والے جموں سے الگ کردیا گیا ہے) کے بھارت میں الحاق سے ہم نے لداخ میںخطرناک اشتعال انگیزی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ نہ صرف مقامی آبادی اس پہ مشتعل ہوگی بلکہ سب ریجن کارگل، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے کو عسکریت کا جواز حاصل ہوجائے گا۔لداخ ہمارے کشمیر کا پرامن ترین حصہ تھا، ہم نے وہاں بھی آگ لگا دی ہے اور کیا اب نئے صوبے جموں کو ایک لیفٹینیٹ جنرل کنٹرول کرے گا؟ یہ تو ہم نے اپنے لئے نئی مصیبت کھڑی کرلی ہے۔برسبیل تذکرہ کارگل ، اسکردو سے ملحق ہے۔اس طرح پاکستان کے ساتھ بھارت کی سرحد مزید پھیل گئی ہے۔ ظاہر ہے اس سرحد پہ بھارت عالمی قوانین کے مطابق اپنی فوجیں بھی لا کھڑا کرے گا۔اس سے کشیدگی کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور بھارت یہی چاہتا ہے۔آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کے بعد بھارتی،کشمیر میں زمین خرید سکیں گے اطلاعات کے مطابق سجن جندل اور امبانی اس کام کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہ بالکل وہی پلان ہے جو یہودیوں سرمایہ کاروں نے فلسطین میں اختیار کیا۔ بھارت کے یکطرفہ طور پہ جموںوکشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کرنے سے، اس کی سفارتی پوزیشن کمزور ہوئی ہے لیکن عملی طور پہ وہ کشمیر پہ قبضہ کرچکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے پاس افغانستان امن کارڈ موجود ہے۔امریکہ کو دباو میں لاکر بھارت کو بیک فٹ پہ جانے پہ مجبور کیا جاسکتا ہے۔طالبان اس سلسلے میں پاکستان کا ساتھ ضرور دیں گے۔ باقی کام بھارت نے خود کردیا ہے یعنی ایک نئی خونی جنگ کا آغاز اور بھارت کے اپنے حصے بخرے۔ ٭٭٭٭٭