میں آج تک اس منظر کو بھول نہیں پایا جو کراچی کلفٹن بینظیر بھٹو پارک میںچند برس پہلے پیش آیا تھا۔ پاکستان کے مسلح دستوں کا ایک باوردی اہل کار ایک ہاتھ جوڑتے‘ گھٹنوں کے بل جھکے شخص کی منت سماجت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے چند قدم کے فاصلے سے گولی کا نشانہ بنا رہا تھا۔ کیا کسی ملک میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جن کے سپرد قوم کی سلامتی کا فریضہ ہو وہ اس طرح شقاوت قلبی کا مظاہرہ کریں۔ کیمرے کی آنکھ نے وہ منظر محفوظ کر لیا تھا۔ نتیجہ ظاہر ہے‘ اس جرم کواس کے منطقی اجام تک پہنچایا گیا تھا۔ مگر شاید یہ جرم ہماری اجتماعی فکر کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم جس کے ہاتھ میں بندوق اس غرض سے دیتے ہیں کہ وہ ہماری سلامتی کا محافظ بنے گا۔ وہ بندوق ہم پر ہی تان لیتا ہے۔ کل میرے شہر ساہیوال کے قریب جو واقعہ پیش آیا۔ اس نے مجھے ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یوسف آباد ‘ قادر آباد میں ان تمام ناموں سے واقف ہوں۔ غالباً تیسری جماعت کی کتابوں میں یہ ہمارے جغرافیہ کا حصہ تھے۔ ان دنوں ابتدائی درجوں میں ضلع کا جغرافیہ پڑھایا جاتا تھا اس وقت ساہیوال ڈسٹرکٹ میں اوکاڑہ اور پاکپتن کے دونوں اضلاع شامل تھے۔ یہ بہت رواں دواں چلتی پھرتی سڑک ہے۔ وہی گرینڈ ٹرنک روڈ جو لاہور سے ملتان جاتی ہے۔ ابھی تو موٹر وے بنی نہیں ہے۔ اس لئے اب تک یہی ہماری مین شاہراہ ہے۔ پشاور سے کراچی جانے والی ٹریفک یہیں سے گزرتی ہے۔ قادر آباد تو وہ علاقہ ہے جہاں ساہیوال کا وہ کول پاور پلانٹ تعمیر کیا گیا ہے جس نے ہماری بجلی کی پیداوار پوری کرنے کے لئے تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔ میری نظر میں یہ رواں دواں سڑک ہے۔ ارے یہاں دن دیہاڑے کھلے عام اس طرح کا بہیمانہ واقعہ ہوا۔ یہ مگر میڈیا ہے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ کیمرے بھی ہیں۔ اگر نصب نہیں کئے گئے تو ہاتھوں میں موبائل فون کی شکل میں جا بجا ہیں۔ اس لئے ہر منظر محفوظ ہو جاتا ہے۔ سب قلعی کھول دیتا ہے۔ میڈیا بھی ہے ‘کیمرے بھی ہیں۔ موبائل بھی ہیں اور شاید قوم کا زندہ ضمیر بھی ہے۔ رات بھر سو نہیں سکا۔ بار بار ٹی وی کھولتا اور دیکھتا‘ نئی صورت حال کیا ہے۔ یہ میری کوئی پیشہ وارانہ ذمہ داری نہیں۔ بلکہ زندہ ضمیر کی خلش تھی شاید۔ کیا ہم مردہ ہو چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ ضرور ہمارے اندر کوئی خرابی ہے یا ہمارے بندوبست میں کمی رہ جاتی ہے۔ ہم اپنی سلامتی کے لئے لوگوں کو ٹرینڈ کرتے ہیں۔ میں نے دانستہ تربیت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اردو کے اس لفظ میں مجھے کچھ تہذیبی شائستگی جھانکتی نظر آتی ہے‘ مگر اس عمل میں تو ایسا نہیں۔ ہم نے یہ سوچ کر ان لوگوں کو اسلحہ تھمایا تھا اور انہیں ایلیٹ فورس کہا تھا۔ ان کا مقام ذرا بلند کیا تھا۔ ملک میں وارداتیں بڑھ رہی تھیں۔ ان سے نمٹناپولیس کے بس میں نہیں رہا تھا۔ پھر ہم نے دہشت گردی کے خلاف خصوصی فورس بنائی۔ یہ سوچ کر کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے اعلیٰ درجے کا اسلحہ ہی نہیں۔ زیادہ زیرک اور ہشیار ذہن کی بھی ضرورت ہے۔ ایسا ذہن جو اندازہ لگا سکے کہ دہشت گرد کون ہے‘ کہاں سے آیا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں۔ گویا انٹیلی جنس اور اعلیٰ درجے کی فائر پاور کو ایک کر دیا۔ مگر یہ تو پہچان ہی نہیں پائے کہ دہشت گرد کون ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ میں جو ہتھیار ہے وہ بہت قوی الاثر ہے۔ نتیجہ یہ کہ بھری سڑک پر ایک بے گناہ معصوم خاندان کو بھون دیا گیا۔ ہم نے انہیں ہتھیار ہی نہیں دیا۔ ان کے بارے میں یہ تصور بھی کر لیا کہ یہ ذہین لوگ ہیں۔ دوآتشہ کہہ لیجیے۔ انجام دیکھ لیجیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی میں جب فوجی آپریشن کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں فوج کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ رینجرز پولیس کی مدد کے لئے بلائی جائے گی تو بہت سوال اٹھے۔ اسے جنرل نصیر اللہ بابر کا آپریشن کہتے ہیں۔ اسے کراچی کے حوالے سے سب سے کامیاب کارروائی کہا جاتاہے۔ اس پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ اس کے دوران ماورائے عدالت قتل کئے گئے۔ بہت سے نامی گرامی دہشت گرد‘ مقابلوں میں مارے گئے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بحث کرتے کہ اس کے سوا چارہ ہی نہیں ہے۔ آپ ملزم کو پکڑتے ہیں اگلے دن اس کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ کوئی گواہی دینے ہی نہیں آتا۔ ہمارے عدالتی نظام میں یہی خرابی ہے ‘ایک آدھ جج بھی مارا گیا۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف خصوصی عدالتیں اور قانون بھی بنائے۔ یہ تو خیر اب پرانی بات ہے۔ اب ہم اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اب ہم فوجی عدالتوں کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ اب تیسری بار یہ عدالتیں آئین اور قانون کے تحت قائم کرنے والی ہیں۔ دلیل وہی ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔ وہ عام طریقے عام فورس اور عام عدالتوں سے ممکن نہیں۔ ہم آہستہ آہستہ ایک خاص ڈھب میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ مگر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس پورے عمل میں ہم سخت دل بھی ہوتے جا رہے ہیں ۔دہشت گردی کا خاتمہ دہشت گردی سے ممکن نہیں۔ ممکن ہوتا تو بھارت کشمیریوںکو رام کر چکا ہوتا۔ اس عرصے میں ہم نے اپنی عام زندگیوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔ صرف گزشتہ سال میں کتنے واقعات ہوتے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک نوجوان سے لے کر اب تک رائو انوار کے گروہ کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل۔ ہم کہاں تک جا پہنچے ہیں۔ مگر رائوانوار یہ سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک ریاستی پالیسی کا حصہ تھے جو جانے کب سے جاری ہے۔ مگر جنرل نصیر اللہ بابر کے آپریشن کے بعد سے یہ زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔ پھر کیا ہوا جن لوگوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا‘ ان میں سے چن چن کر پولیس افسر مارے جاتے رہے۔ آخر میں اسلم خاں کا واقعہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک رائو انوار ہی باقی تھا۔ وہ جو کچھ کرتا تھا۔ عام تاثر یہ ہے کہ اسے خود کوئی اس کا شوق نہ تھا۔ وہ دہشت گردوں سے نپٹنے کے لئے ریاستی پالیسی پر عمل کر رہا ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے اسے بہادر آدمی بھی کہا گیا۔ اس لئے اس کی آخری غلطی کو اب کوراپ کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ مان لینا چاہیے کہ یہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ریاست کی ایک بڑی پالیسی کا حصہ ہے اس میں ایک حصہ اس بیانیے کا بھی ہے جس میں گمشدہ افراد کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ اور بھی نئے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوئے ہیں مگر جن پر یہ واقعات بیتے ہیں‘ ان کے لئے چھوٹے نہیں ہیں۔ ذرا یاد کیجئے وہ جواں سال ماں باپ جو اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں میں مرتا دیکھ رہے تھے۔ پولیس کے پاس کوئی جواز نہ تھا اس نے اس ننھی امل کو نشانہ کیوں بنایا۔ یہ تو کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم اپنی حفاظت کے لئے فورس بناتے ہیں۔ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی ذہانت کا تقاضا ہے کہ وہ دشمن کو پہچانتے ہوں گے وہ مگر ہمیں یونہی لقمہ اجل بنا ڈالتے ہیں اور وہ بھی یوں کھلم کھلا کہ یقین نہیں آتا ایسا ہو سکتا ہے۔ کیا ہمارے گناہ اتنے زیادہ ہیں۔ ایسا ہوتا تو اس کی سزا بے گناہوں کو تو نہ ملتی۔ یا پھر ہماری حکمت عملی میں کوئی کمی رہ گئی ہے ہم نے انہیں اپنی حفاظت کے لئے مامور کیا تھا۔ انہیں اپنی ہلاکت کا لائسنس نہیں دیا تھا۔ ایسے کیسے ہوتا ہے کہ وہ اتنی کھلی غلطیاں کرتے ہیں انہیں اگر ان لوگوں پر شک تھا تو انہوں نے انہیں بے بس کر کے سڑک کے کنارے لگا دیا تھا۔پھر انہیں کیا ڈر تھا کہ انہیں قابو نہ کر سکے۔ گرفتار نہ کر سکے۔ کیا انہیں جوابی کارروائی کا ڈر تھا۔ ڈر تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی بے گناہ کو مار دیتے۔ یہ کیسی تربیت ہے۔ یہ کیسی جانبازی ہے۔ وہ کارروائی کرتے تو اس کا کوئی توڑ ان کے پاس تو ہوتا۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ پورا کنبہ بھون ڈالا۔ کیسی تربیت ہے‘ کیسی ذہانت ہے۔ ہمارے اجتماعی ضمیر‘ اجتماعی شعور میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی۔ دہشت گردی نے کہیں ہمیں اتنا خوفزدہ تو نہیں کر دیا کہ ہم بے گناہوں اور گناہ گاروںمیں تمیز نہیں کر پا رہے۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا خون بہا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں دہشت گرد مارے گئے۔ ہمیں اپنی سکیورٹی کے بیانیہ کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ شاید ہم غلط لائن پر چل پڑے ہیں۔ ہمیں اپنی تربیت کوبھی درست کرنا ہے اور یہ بات بھی سیکھنی ہے کہ ہتھیار اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے ہیں۔ اپنے لوگوں کو مارنے کے لیے نہیں: یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی