پی ڈی ایم کی اہم جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے سیاسی اختلاف کو ریاست مخالف موقف میں ڈھالنے کی کوششیں بلاول بھٹو زرداری کے تازہ انٹرویو سے پگھلتی محسوس ہونے لگی ہیں۔ بی بی سی کو انٹرویو میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نواز شریف کی گوجرانوالہ میں تقریر کے دوران فوجی قیادت کا نام براہ راست سننے پر دھچکا لگا۔ انہوں نے بتایا کہ فوجی قیادت پر الزامات کی بجائے اے پی سی میں طے پایا تھا کہ کسی ادارے کا نام نہیں لیا جائے گا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کہا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ اپوزیشن اتحاد کا یہ مطالبہ نہیں کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ہو۔ تاریخی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن ان تمام انتخابات سے فائدہ اٹھانے والی جماعت رہی ہے جن میں عوامی مینڈیٹ چرایا گیا۔ میاں نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لئے عوام میں مقبول جماعتوں کو کمزور کیا گیا اور جمہوری قائدین کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ نواز شریف آئی جے آئی بنانے، رقوم تقسیم کرنے اور پھر اسامہ بن لادن سے فنڈز لے کر بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے میں ملوث رہے۔ ان کے یہ جرائم ثبوتوں کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ ہیں جن پر انہوں نے اب تک ووٹرز سے معافی مانگی نہ شرمندگی کا اظہار کیا۔ تعجب اس امر پر ہے کہ وہ جب کبھی چرائے ہوئے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے انہوں نے خود کو سچا جمہوری رہنما ثابت کرنے کے لئے اداروں اور اہم تخصیات کے ساتھ عجیب و غریب ٹکرائو کی ڈگر پر ڈال دیا۔ جنرل جہانگیر کرامت ہوں یا چیف جسٹس سجاد علی شاہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو جب کسی سیاسی رہنما نے چیلنج کیا اسے سکیورٹی رسک‘ مسٹر ٹین پرسنٹ‘ اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ذرا سا شعور رکھنے والا شہری بھی جانتا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان کاروبار سے زیادہ مالیاتی جرائم کی مدد سے بے انتہا دولت مند بنا۔ اس دولت کا حساب ان کے ٹیکس ریکارڈ میں نہیں۔ اتنی دولت کن ذرائع سے حاصل کی؟اس سوال کا جواب دینے کی بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں۔ پہلے اپنی برطرفی پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اب بیماری کے نام پر لندن جانے کے بعد وہاں سے پاکستان کی ریاست اور ریاستی اداروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس میں صرف اپنے ذاتی مفاد کو مقدم رکھا گیا ہے ، ریاست کے راز اگلنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ، یہ صورتحال کئی داخلی اختلافات کا باعث بن رہی ہے اسی لیئے نواز شریف کے بھائی اس بیانئے سے الگ ہو کر جیل کو گوشہ پناہ بنائے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے مابین مسلسل رابطہ ہے۔دونوں ایک دوسرے کے موقف کو درست قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کی سب سے اہم جماعت پیپلز پارٹی ہے جو سندھ میں برسراقتدار ہونے کی حیثیت سے پی ٹی آئی کی شراکت دار قرار دی جا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان میں بلاول بھٹو کی بات کو لوگ اس لئے سن رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے سیاسی اختلاف کو ریاست سے لڑائی بنانے کے خلاف ہیں۔بلاول بھٹو کو اگرچہ نواز شریف کے سخت رویے سے سیاسی فائدہ پہنچا ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ن لیگ جس موقف کو جمہوری بیانیہ قرار دے رہی ہے وہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ کہنا پڑا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج بہادر ہیں اس لئے کوئی فیصلہ آنے پر کچھ ججوں کو بہادر کہہ کر عدالت کے ڈسپلن میں دراڑ ڈالنا کسی طور درست نہیں۔ مسلم لیگ کے بیانیے کو محب وطن حلقے کس طرح مسترد کر رہے ہیں اس کا ایک مظاہرہ بلوچستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ سمیت درجنوںاہم افراد مسلم لیگ ن سے استعفے دینے کو تیار ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں متعدد سیاسی شخصیات ن لیگی قائد کے نعرے کو مسترد کر کے اس سے لاتعلق ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اراکین کی لاتعلقی اور بیزاری کو ان کی بزدلی اور نظریاتی کمزوری قرار دے کر ان لوگوں کی سابق خدمات کو فراموش کیا ہے۔ ایسی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں کہ کون ریاست مخالف سوچ کا مخالف اور کون حامی ہے۔ یقینا بلاول بھٹو کے سیاسی مفادات ہوں گے‘ سیاستدان اپنے طے کردہ مفادات کے حصول کو ممکن بنانے کی راہ نکالتا ہے لیکن میاں نواز شریف اور ان کی دختر اپنی خواہشات اور اداروں کے خلاف سوچ کو جماعتی نظریہ بنا کر ایک ایسی روایت کو فروغ دے رہے ہیں جس کی حمایت سیاسی اور جمہوری عمل پر یقین رکھنے والی کوئی جماعت نہیں کر سکتی۔ بلاول بھٹو کی طرح وزیر اعظم عمران خاں نے بھی ن لیگی طرز سیاست کو ریاست کے لئے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ حالات اسی ڈھب پر رہے تو وہ دن دور نہیں جب نئے سیاسی حقائق خلا کو پر کر لیں گے۔ خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ قائد اعظم کی مسلم لیگ کنونشن لیگ بنی اور پھر درجنوں مسلم لیگوں میں بٹ گئی۔ ریاست مخالف بیانیہ پر اصرار برقرار رہا تو سیاسی برادری میں شریف خاندان کا تنہا رہ جانا باعث تعجب نہ ہو گا۔