ہفتہ رفتہ جب آل پارٹیز کانفرنس(اے پی سی) کا اعلان ہواتو یقین کریں مجھے بالکل کوئی حیرانی نہیں ہوئی، کیونکہ اس سے پہلے بھی اپوزیشن کی اے پی سی ، نشتند، گفتند، برخاستندکے سوا کچھ نہیں تھی اور رہی بات اپوزیشن کے نئے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کی، تو اس کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوتا نظر آتا ہے، جیسا کہ ماضی میں مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا ہوا۔سیاسی مبصرین کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حالیہ اپوزیشن اتحاد بھی حکومت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں بن سکتا، تاہم اگر بات کی جائے حالیہ اے پی سی کی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اے پی سی میں سب سے زیادہ اہم کیا تھا؟ میری نظر میں تو اس اے پی سی میں سب سے زیادہ اہم مسلم لیگ( ن) کے قائد نواز شریف کی تقریر تھی، جس میں واضح الفاظ میں صرف اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کیا گیا۔نواز شریف کایہ کہنا کہ ’’ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ، ہماری جدوجہد عمران خان کو لانیوالوں کے خلاف ہے‘‘۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت سے اپوزیشن کو کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ ان کی لڑائی عمران خان سے نہیں، ان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ سو‘ وزیر اعظم عمران خان تو سکھ کا سانس لیں کہ کم از کم نواز شریف کا ان سے کچھ لینا دینانہیں۔ آخر نواز شریف نے اتنی لمبی خاموشی کے بعد اتنا سخت لہجہ کیوں اپنایا؟خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف، یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں اس وقت ملاجب ڈی جی آ ٓئی ایس پی آرنے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایاکہ آرمی چیف سے محمد زبیر(نمائندہ نواز شریف) نے دو مرتبہ ملاقات کی ۔ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی۔دونوں ملاقاتیں محمد زبیرکی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے ۔ دونوں ملاقاتوں میں محمد زبیرنے مریم نواز اور نواز شریف سے متعلق بات کی ،ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں میں حل ہوں گے اور ان کے سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دْور رکھا جائے۔اب ،محمد زبیر جتنی مرضی وضاحتیں دے دیں کہ وہ اپنے 40 سالہ پرانے تعلقات کی بنا پر ذاتی حیثیت سے جنرل باجوہ کو ملے اور انہوں نے پارٹی کے لیے کچھ نہیں مانگا وغیرہ وغیرہ، لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ محمد زبیر کی ان وضاحتوں میں کوئی وزن نہیں ،کیونکہ مریم نواز اس سے قبل یہ کہہ چکی تھیں کہ مسلم لیگ(ن) کے کسی نمائندے نے آرمی چیف سے ملاقات نہیں کی۔ یقیناً محمد زبیر کی ایک نہیں دو ملاقاتوں کے بارے میں ترجمان فوج کے بتانے کے بعد مریم نواز کو سبکی اور شرمندگی ؎کا سامنا تو ہوا ہو گا۔ قارئین کرام اب کچھ جان چکے ہونگے کہ نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس قدر سخت لہجہ کیوں اپنایا؟ جب انہیں کسی قسم کا ریلیف نہ ملا تو پھر ایسا سخت لہجہ اپنایا گیا،لیکن اس سب کے ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ کیا شہباز شریف کو محمد زبیر کی ملاقاتوں کا علم تھا؟ اور کیا شہباز شریف کو یہ بھی معلوم تھا کہ اے پی سی میں بڑے بھائی نواز شریف اتنا سخت ردعمل دینے والے ہیں؟تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ شہباز شریف کو نواز شریف سے اس کی توقع نہیں تھی۔ اب آپ خود سوچیں کہ اگر نوازشریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کو اعتماد میں نہیں لیا، تو دیگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو تو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے، لہذاکیا اب پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان مستقبل میں نواز شریف پر اعتبار کریں گے؟ جبکہ زرداری صاحب پہلے کی میاں صاحبان کو نا قابل اعتبار کہتے ہیں۔ 92 نیوز کے پروگرام ’’ نائٹ ایڈیشن‘‘ کے گزشتہ دنوں کے ایک پروگرام میں میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کہہ چکے ہیں کہ نون لیگ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں آگے کر کے یہ لوگ پیچھے سے خود ڈیل کر لیتے ہیں۔اب رہی بات مولانا فضل الرحمان کی، تو مولانا صاحب جس طرح کی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ، وہ نہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے او نہ ہی مسلم لیگ (ن)، کیونکہ مولانا صاحب نے اے پی سی کے اعلامیہ میں استعفے دینے کا جوذکر کیا تھا، کیا ان کے مرضی و منشا کے مطابق پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) استعفے دے گی ؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ہرگز نہیں، کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اس بارے میں کہہ چکے کہ اپوزیشن استعفے دے، الیکشن کروا لیتے ہیں، لیکن اپوزیشن ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تو پھر انہیں صرف کرسی سے پیار ہوتا ہے، نہ کے عوام سے!یہی میاں صاحب جلاوطنی کے دنوں میں لندن میں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے۔انہیں عوام کا درد ستاتا تھا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ماضی میں بھی شریف خاندان، جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرکے جدہ روانہ ہو اتھا ،لیکن نواز شریف کسی بھی قسم کی ڈیل کو مسلسل جھٹلاتے رہے،مگر ہم سب نے دیکھا کہ ستمبر 2007 کو سعودی انٹیلی جنس کے چیف شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز اور لبنانی سیاستدان سعد الحریری باقاعدہ طور پر پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے نواز شریف کے 10 سالہ معاہدے کے بارے میں ناصرف ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ، بلکہ اس معاہدے کا تحریری ثبوت بھی پیش کیا۔بعد ازاں جب نواز شریف وطن واپس ا? گئے اور ایک مرتبہ پھر حکومت میںآئے، لیکن اسی عوام کو پھر درد دے کر اب ایک بار پھر لندن جا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک بار پھر لندن میں بیٹھ کر انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔ نواز شریف یادِ ماضی کریدیں تو انہیں یادآئے گا کہ اسلامی جمہوری اتحادکس نے بنایا تھا اور اس کو کس نے سپورٹ کیا تھا۔1990 میں سیاست دانوں میں پیسے کس نے تقسیم کیے تھے اور کس کے خلاف تقسیم کیے تھے؟ یہ سب باتیں یاد دہانی کے لیے اس لیے ضروری ہیں کہ جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نواز شریف بول رہے ہیں اوراپنے نمائندوں کو ملاقاتوں سے منع کر رہے ہیں، اسی اسٹیبلمنٹ کے ساتھ ماضی میں نواز شریف کا نہایت گہرا اور مضبوط تعلق رہا ہے جبکہ یہ زمینی حقیقت ہے کہ جس کو بھی نواز شریف اپنا سمجھ کر لاتے ہیں، اسی کے ہاتھوں اقتدار سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو نواز شریف کے والد گرامی میاں شریف صاحب اپنا چوتھا بیٹا کہتے تھے، اسی جنرل مشرف نے نواز شریف کی سیاست کی بساط لپیٹ دی اور نواز و شہباز شریف کو معاہدہ کر کے سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔اب، نواز شریف،جب ایک بار پھر اقتدار سے باہر ہیں تو انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں ،جبکہ گزشتہ روز 25 برس تک مصالحت کی سیاست کرنے کے دعوے دار شہباز شریف 800 ارب کے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منسوخ ہونے پر گرفتار ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ جو ایک بار پھر انقلابی سیاست کرتی نظر آ رہی ہے اور کسی قسم کا این آر او نہ لینے کی دعوے دار بھی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ،مگر حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف علاج کے لیے باہر بھی جاتے ہیں اور انھی اداروں سے ریلیف بھی لیتے ہیں، جن کے خلاف وہ لب کشائی کرتے ہیں۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور!!