کوہ ندا سے رہ رہ کر صدا آتی ہے:یا اخی‘ دم بھر کے توقف کے بعد’’اخی‘‘ لبیک کہتا ہوا سر پٹ دوڑتا ہے اور بنی گالہ کے گنبد باور میں داخل ہو جاتا ہے۔ تازہ داخلہ سردار جعفر لغاری کا ہوا ہے۔ لبیک کی صدا سب نے سنی‘ یا اخی کی آواز چند ہفتے پہلے بلند ہوئی تھی۔ کسی کو یاد ہو گی‘ کسی کسی کو یاد نہیں بھی ہو گی۔ آنے والے ہفتوں میں یا اخی کی صدائیں تیز ہوں گی۔ لبیک لبیک کی گونج بھی بڑھے گی۔ لوگ تہنیت کہیں گے۔ یعنی الیکشن تک نیب کی مصروفیت ایسی رہے گی کہ سر کھجانے کی مہلت بھی نہیں ملے گی۔ اور الیکشن کے بعد فرصت میسر آئے گی۔ ایسی کہ مکھیاں مارتے مارتے دن تمام ہو گا۔ ایسی مصروفیت کے بعد فرصت کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس دوران بنی گالہ کے کسی چوبدار نے حق سچ کی بات کی ہے کہ جو سچا ہے‘ اسے کیا ڈر‘ بھلے سے نیب کتنی ہی تحقیقات کر لے۔ ڈرتا وہی ہے جو چور ہے۔ لیکن حضور‘پاکستان کے زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ جو چور نہیں ہے‘ تھانے سے وہی ڈرتا ہے۔ چور کو کیا ڈر‘ خدا لگتی یہی ہے۔ تھانے کچہری کے کلچر کی تفصیل بہت لمبی ہے‘ بات نیب تک ہی رکھتے ہیں۔ اوروں کی چھوڑیے۔ تین چار سال پہلے تک جو جاوید ہاشمی ارباب بنی گالہ کی آنکھ کا تارا تھے‘ انہی کی سن لیجیے۔ نیب نے انہیں بھی گرفتار کیا تھا۔ بدعنوانی کے کسی الزام کی تحقیقات مطلوب تھیں اور پھر طویل مدت کی حراست یہ کہہ کر ختم کر دی گئی کہ الزام ثابت نہیں ہوا۔ ملزم بے گناہ پایا گیا چنانچہ رہائی کا حکم صادر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یا اخی کی صدا جسے بھی آئے اسے ڈرنا بھی پڑتا ہے اور دوڑنا بھی۔ بہرحال چیئرمین نیب کی اس بات میں پورے سے زیادہ وزن ہے کہ ان کے ادارے کو سیاست سے کیا سروکار۔ ٭٭٭٭٭ ٹی وی چینل ایک بڑی بریکنگ نیوز اور اس کے بعد اڑنے والی بے محابا دھول سے بچ گئے۔ جی ہاں یہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کی خبر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب سماجی ترقی میں سارے ملک میں سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر ہے اور آخر میں تبدیلی والے صوبے کا نمبر ہے۔ درجہ بندی میں مارکنگ بھی کی گئی ہے۔ بلوچستان کا تو خیر ذکر ہی کیا‘ وہاں ترقی کا سوال ہی کہاں۔ اس خبر کو اخبارات نے اتنی ہی اہمیت دی جتنی بنی گالہ کے کسی گمنام ایم پی اے کے بیان کو دی جاتی ہے۔ یوں طوفان برپا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ فرض کیجیے ترقی میں پہلا نمبر تبدیلی والے صوبے کا ہوتا تو…؟ کپتان کی مدح میں وہ قضئیے برپا ہوتے کہ ٹی وی سکرینیں پھٹ جاتیں۔ اسی طرح مفروضے کو الٹ کر دیکھئے‘ یعنی خبر یوں آتی کہ پنجاب ترقی میں سب سے پیچھے رہ گیا تو…؟ کم سے کم دو ہفتوں کے لیے غداری کے مسئلے پر جو غدر مچا ہوا ہے۔ وہ سب کو بھول جاتا۔ خان صاحب بہرحال دل گرفتہ نہ ہوں۔ اقوام متحدہ نے غالباً وہ ایک ارب درخت نہیں دیکھے جو آپ نے بنی گالہ میں بیٹھے بٹھائے اگا دیے اور وہ ساڑھے تین سو ڈیم بھی نہیں دیکھے جو آپ نے پشاور اور گردو نواح کے گلی کوچوں میں تعمیر کر دیے ہیں۔ اگر دیکھ لیے ہوتے تو یقین مانیے یو این ڈی پی کی رپورٹ قطعی معکوس ہوتی۔ ٭٭٭٭٭ بھارت نے متنازعہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کر دی۔ پاکستان کے لیے پانی کم ہو جائے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت نے آبی جارحیت شروع کر دی۔ بہادر پرویز مشرف کی یاد آ گئی۔ انہوں نے جب ملک پر قبضہ کیا تھا تو شاید خیر سگالی کے طور پر عالمی عدالت میں کشن گنگا ڈیم کے خلاف کیس نہیں لڑا تھا۔ بھارت نے آج تک اس کے شکرئیے کی رسید نہیں دی۔ خیر ‘ بھارت نے اس وقت بھی شکریے کی رسید نہیں دی تھی جب مشرف واجپائی کی ’’گھٹنا بوسی‘‘ کے لیے آگرے پہنچ گئے تھے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے ہی نیلم جہلم پراجیکٹ مکمل کرلیا۔ پرویز مشرف نے اس پروجیکٹ کی تعمیر اپنے دور میں روکے رکھی‘ زرداری کے دور میں بھی یہ رکا رہا۔ پھر جس نے تعمیر کی‘ اس کا نام تو بہرحال نہیں لیا جا سکتا۔ غدار اور مودی کے یار کا نام لینا ٹھیک بات نہیں ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ آج کے بعد‘ افغان فورسز پر حملے نہیں کریں گے۔ صرف امریکی اور غیر ملکی فوجی ہی ان کا نشانہ بنیں گے۔ اچھا فیصلہ مگر بہت دیر کر دی۔ افغانستان میں عوامی رائے بتدریج طالبان کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں پھٹتی ہیں تو عوام مرتے ہیں۔ عام شاہراہوں پر محض اس لیے بارودی سرنگ لگانا کہ یہاں سے فوج کی گاڑی بھی گزرے گی۔ ایسی حکمت عملی ہے جو ملا عمر کے زمانے میں نہیں تھی۔ طالبان خوش ہیں کہ ان کے پاس ملک کا 45فیصد رقبہ ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس رقبے میں ایک بھی شہر نہیں ہے۔ تمام ضلعی دارالحکومتوں کا کنٹرول کابل حکومت کے پاس ہے۔ عوامی تائید میں کمی کی وجہ سے ان کی گوریلا جنگ کامیاب نہیں‘ ناکام ہو رہی ہے۔ وہ افغانوں کو مار رہے ہیں اس سے افغانوں کی مردم شماری تو کم ہو گی۔ فتوحات کا دائرہ بس اسی 45فیصد رقبے کے گرد گھومتا رہے گا۔ کیا افغانستان پر امریکہ پہلے کی طرح قابض ہے؟ آخر کسی نہ کسی دن طالبان نے الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ تب کیا ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ ایرانی پارلیمنٹ کے رکن رسول خضری نے بتایا ہے کہ ملک کی 8کروڑ میں سے دو کروڑ آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے۔ غالباً یہ دنیا میں سب سے بڑی شرح ہے۔ ایرانی حضرات تو فوری ردعمل یہی دیں گے کہ یہ سب امریکی پابندیوں کا نتیجہ ہے لیکن پابندیاں تو دو سال اٹھی رہیں۔ ان سے پہلے یہ شرح کم تھی۔ اٹھنے کے اتنے عرصے بعد کیوں بڑھ گئی؟ پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کو بے تحاشا آمدن ہوئی۔ منجمد اثاثے بھی بحال ہو گئے۔ وہی اصول تاریخ کا سامنے رکھیے کہ کوئی بھی سلطنت آمدن سے بڑھ کر پھیلائو کرتی ہے تو تباہ ہو جاتی ہے۔تاریخ کا اصول سائنس کی طرح ہے اور سائنس غلط نہیں ہوتی۔