عمان کے بادشاہ کی وفات کا ذکر کرنے سے پہلے اپنے دوست ڈی جی پی آر لاہور کے ڈائریکٹر ایڈمن جناب ارشد سعید کے انتقال پر افسوس کروں گا کہ ارشد سعید قابل ترین افسر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان اور بہت اچھے دوست بھی تھے ۔ میں جب بھی ان کے پاس جاتا وہ برملا کہتے کہ میں پنجابی ہوں لیکن مجھے سرائیکی بہت اچھی لگتی ہے کہ یہ میٹھی بولی ہے اس کے ساتھ وہ کہتے کہ مجھے قدرتی طور پر آپ کے وسیب کے لوگوں سے محبت اور ہمدردی ہے ۔ سئیں ارشد سعید کے جنازے میں سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر ، ڈی جی پی آر اسلم ڈوگر ، سابق سیکرٹری اطلاعات شعیب بن عزیز سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کر کے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ مرحوم ارشد سعید دلیر ، بہادر اور دل والے آدمی تھے اور حضرت سلطان باہوؒ نے دل اور دل والوں کے بارے مین کہا کہ ’’ دل دریا سمندروں ڈونگے ، کون دلاں دا جانے ہُو‘‘ ۔ عمان کے سلطان قابوس سعید السعید 79 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، انہوں نے شادی نہیں کی تھی،سلطان قابوس کے انتقال پر عمان میں تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور 40 روز قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔ سلطان قابوس عمان کی غیرجانبدارخارجہ پالیسی کے حوالے سے مشرق وسطی میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم مشہور تھے۔ سلطان قابوس نے 1970ء میں عمان کاتخت سنبھالاتھا اور ان کے دورمیں عمان نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ سلطان قابوس خلیج فارس کے خطے میں ایک ممتاز ثالث تھے جنہوں نے امریکہ اور ایران کے مابین خفیہ مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی مذاکرات اور 2015 کے جوہری معاہدے طے پائے تھے۔ آج ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے پوری دنیا کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے ، امریکا نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا بدلے میں ایران نے بھی وار کیا ، اس کے علاوہ اس جنگ کے نتیجے میں ایک اور افسوسناک اور المناک یوکرین کے طیارے کا حادثہ پیش آ چکا ہے جو کہ ایرانی میزائل سے طیارے میں سوار تمام لوگ ہلاک ہوئے ۔ اس صورت میں ایک اور سلطان قابوس کی ضرورت ہے ۔ عمانی میڈیا کے مطابق نئے سلطان مرحوم کے چچا زاد بھائی ہیں،اس وقت وہ وزیر ثقافت کے عہدے پر فائزتھے،ہیثم بن طارق نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ عمان کی وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل اور انڈر سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ 13 اکتوبر 1956 کو پیدا ہوئے اور ان کی عمر 65 سال ہے۔متحدہ عرب امارات میں بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔صدر عارف علوی،وزیراعظم عمران خان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سلطان قابوس کے انتقال پر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک وژنری لیڈر تھے جنہوں نے عمان کو جدید ریاست میں تبدیل کیا۔انہوں نے کہا کہ عمان نے ایک پیار کرنے والا لیڈر اور پاکستان نے ایک دیرینہ دوست کھو دیا ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ کوئی بادشاہ فوت ہو جائے تو نئے سلطان کا مرحلہ پیش آتا ہے ، اسی طرح عمان میں رائج طریقہ کار کے مطابق شاہی خاندان3روزمیں جانشین کاچناؤکرنے کامجازہے لیکن اگر 3روزمیں جانشین کاچناؤنہ ہو تو پھر اعلیٰ حکام ایک بند لفافہ کھولیں گے جس میں سلطان قابوس نے اپنے جانشین کا نام لکھا ہے تاہم اس کی نوبت نہ آسکی اور شاہی خاندان نے ہیثم بن طارق السید کو ملک کا نیا سلطان منتخب کرلیا ہے۔ معروف شاعر، ڈرامہ ، ناول نگار، فنکار اور ریڈیو ملتان کے سابق فیچر رائٹر نور احمد غازی انتقال کر گئے ، مرحوم متعدد کتابوں کے مصنف تھے اور ان کے ریڈیو پاکستان ملتان سے پیش کردہ ڈرامے خاصی شہرت رکھتے تھے ۔ نور احمد غازی کے ناول رقص حیات اور درندے خاصے مشہور ہوئے ۔ مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ اور ایک بیٹا چھوڑا۔ نور احمد غازی کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان ملتان کے کیپٹن ( ر ) اختر جعفری مرحوم کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔ انہوں نے ریڈیو کے لئے بہت ڈرامے لکھے اور بہت کام کیا۔ ریڈیو پاکستان جو کہ اہم ترین قومی ادارہ ہے ، ریڈیو بر صغیر میں 1927ء بمبئے سے اپنی نشریات کا آغاز کیا اور 1928ء میں لاہور میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا ۔ سرائیکی وسیب میں ریڈیو پاکستان ملتان 1970ء میں قائم ہوا ۔ سرائیکی زبان و ادب و سرائیکی ثقافت کے حوالے سے ریڈیو پاکستان ملتان کی بہت خدمات ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیائی ڈراموں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے تاکہ یہ قومی ورثہ محفوظ ہو سکے۔ ملتا ن کے نامور خطاط مصور اور آرٹسٹ علی اعجاز نظامی کو یاد نہ کیا جائے تو نامناسب ہوگا ، مرحوم فن مصوری ، نقاشی ، کاشی گری ، پین ورک اور دیگر فنون کا انسائیکلوپیڈیا تھے ۔ اسمائے ربانی کو انتہائی خوبصورت اور مختلف انداز سے تحریر کرنا ان کا فنی کارنامہ ہے۔ ملتان کے تاریخی دروازوں و دیگر ثقافتی مناظر کو تصویری شکل بھی دی ۔ کچھ عرصہ پہلے معروف ادیب و محقق محمد رفیع ہاشمی شجاع آباد میں انتقال کر گئے ۔ مرحوم نے وسیب کی تاریخ ، ثقافت اور زبان و ادب پر بہت کام کیا ۔ بنیادی طور پر وہ کلرک تھے اور تحصیل کچہری شجاع آباد میں پوری زندگی گزار دی ۔ مگر ان کو علم و ادب خصوصاً تاریخ سے بہت دلچسپی تھی ان کے تحقیقی مضامین قومی اخبارات کی زینت بنتے رہے اور سرائیکی لکھنے پر ان کو عبور حاصل تھا ۔ سرائیکی اخبار جھوک سرائیکی کے وہ مستقل لکھاری تھے ۔ ان کو ایک عرصے سے یرقان کا مرض لاحق تھا ۔ وہ اس کا اظہار بار بار کرتے تھے اور مضامین میں بھی انہوں نے ذکر کیا کہ سرائیکی وسیب خصوصاً شجاع آباد میں زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے ، جس سے یرقان کا مرض تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ حکومت اس طرف توجہ دے مگر حکومت نے کوی توجہ نہ دی ۔ وہ اپنے مضامین کی کتاب بھی چھپوانا چاہتے تھے مگر بیماری نے ان کو بستر مرگ سے نہ اُٹھنے دیا ۔ وسیب کے لوگ آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ قوموں کا یقینا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تحریریں شائع کی جائیں ۔