عورتوں کے عالمی دن پر مذہبی جماعتوں نے بھی جلوس نکالے اور انہیں ’’حیا مارچ‘‘ کا نام دیا۔ ان حیا مارچوں میں بہت اچھے نعرے لگائے گئے لیکن عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ایک تاثر جھوٹا یا سچا یہ بنا کہ مقصد عورتوں کے حق میں آواز اٹھانا نہیں تھا، محض مغرب زدہ خواتین کو کائونٹر کرنا تھا۔ اچھی بات ہے، مغرب زدہ ایجنڈے کو ناکام ہونا ہی چاہئے لیکن اسلامی جماعتیں اگر عورتوں کے مسائل حل کرانے کے لیے آگے بڑھیں تو مغربی ایجنڈا خود ہی ناکام ہو جاتا۔ محض ان کا راستہ روکنے کے لیے مارچ کرنے سے بات کیسے بنے گی۔ ویسے اب ہمارے ہاں سارا ایجنڈا مغرب ہی کا چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف بھی مغرب ہے، عالمی بنک بھی اور امریکہ بھی۔ ہمارے پلے اب ہمارا کچھ رہا ہی کہاں۔ ٭٭٭٭٭ ماضی کی ایک بات یاد آ رہی ہے۔ 1470ء کی دہائی میں ٹریڈ یونین تحریک بڑے زوروں سے اٹھی اور ملک پر چھائی قیادت سوشلسٹوں کے پاس تھی جو مزدوروں کے دکھ درد کی بات کرتی۔ اس قیادت میں بہت سے لوگ اسلام سے بیزار تھے اور اتنے جرأت مند کہ کھلم کھلا اپنی اسلام بیزاری ظاہر کرتے۔ جماعت اسلامی نے ان کو کائونٹر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ محض کائونٹر برائے کائونٹر نہیں، مزدوروں کے مسائل زیادہ زور دار طریقے سے اٹھائے۔ ان کی ہمدردی میں خلوص دکھایا اور نتیجہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشلسٹ پیچھے چلے گئے۔ کراچی سٹیل، پی آئی اے، ریلوے، روڈ ٹرانسپورٹ سمیت اہم اداروں اور کارخانوں کی بڑی تعداد پر ااس کا غلبہ ہو گیا۔ جماعت کی حامی مزدور قیادت نے مزدوروں کے حالات کار بہتر بنائے اور تنخواہیں بھی بڑھوائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر مرد مومن مرد حق صاحب تشریف لائے اور پاکستان پھر امریکہ کی آغوش میں چلا گیا۔ بندہ مزدور کے اوقات پہلے سے بھی تلخ ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ یہ تجربہ اب بھی کامیاب ہو سکتا تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ حیا مارچ میں صرف ’’حیا‘‘ کے نعرے تھے۔ یا پھر یہ اعلان کہ اسلام عورتوں کو سارے حقوق دیتا ہے۔ یعنی اب جو کچھ عورتوں کے ساتھ ہو رہا ہے،اس کے خلاف کوئی آواز نہیں۔ ان ّھذلشییٌ عجاب۔ پاکستانی عورتیں بہت مظلوم ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ادارے کی رپورٹ دیکھ لیں۔ سب سے زیادہ قتل بنام غیرت یہیں ہوتے ہیں، عورتوں پر سب سے زیادہ تیزاب یہیں پھینکا جاتا ہے۔ ان گنت عورتیں اغوا اور ریپ ہوتی ہیں۔ اب تو ڈاکوئوں نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے۔ غریب عورتوں کے حالات اور بھی ناقابل بیان ہیں۔ وہ نہایت کم معاوضے پر محنت مزدوری کرتی ہیں، گھروں میں ماسیاں بنتی ہیں، ان کی بچیاں آٹھ ہزار روپے مہینے پر چوبیس گھنٹے کی غلامی کرتی ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر سارا دن اپنے بچوں کے ہمراہ کام کرتی ہیں جو کام کم اور بیگار زیادہ ہے۔ مڈل کلاس کی عورتیں بھی حقوق سے محروم ہیں، ’’طلاق‘‘ کی تلوار ان پر لٹکی رہتی ہے۔ ان گنت دکھ ہیں اور ان کی جندڑی سخت علیل۔ اور یہ سب اسلام کی نفی ہے۔ قرآنی احکام کی پامالی ہے اور حیرت ہے، کبھی کسی مذہبی جماعت نے ان مسائل پر ایک بھی بیان نہیں دیا۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں عورتوں کی شادی قرآن پاک سے کر دی جاتی ہے تا کہ جائیداد سلامت رہے۔ اس رسم کے خلاف کوئی عالم دین کبھی نہیں بولا۔ کسی مذہبی جریدے میں ایک سطر تک شائع نہیں ہوئی۔ عورتوں کا ذکر جب بھی ہوتا ہے۔ ان کی ’’حیا‘‘ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ وہ کوئی جاندار مخلوق ہیں۔ انسان ہیں، ایسی کوئی بات خدانخواستہ کسی اسلامی جریدے میں نہیں دیکھی اور نہیں تو یہی حدیثؐ ہی چھاپ دیا کریں کہ تم مردوں میں سب سے اچھا وہ ہے جس کا بیوی کے ساتھ اچھا سلوک ہے۔ ٭٭٭٭٭ عورت مارچ کے سارے مطالبات اسلام کے مطابق ہیں لیکن اس تحریک کی قیادت کے دیگر خیالات اسلام سے ٹکراتے ہیں اور بعض کے تو بہت ہی زیادہ۔ مراعات یافتہ طبقے کی خواتین ہیں جو خواتین کے مسائل سے کم، اپنی ’’خواہشات کے لیے آزادی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ لاہور، پنڈی کے اجتماعات میں غریب عورتوں کی تعداد اکثریت سے کم تھی لیکن سندھ میں بھاری اکثریت غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ سندھ کے کئی شہروں میں پانچ پانچ ہزار عورتوں کے جلوس نکلے اور کم و بیش ساری خواتین ہی مڈل اور لوئر مڈل کلاس والی تھیں۔ سندھ کی عورتوں میں شعور پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ وہاں کئی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں۔ سندھیانی تحریک بھی ان میں شامل ہے۔ سندھ کی روایت پنجاب کے مقابلے میں بہت متاثر کن ہے۔ وہاں حیدر بخش جتوئی نے کسانوں کے لیے اتنا کام کیا کہ پورے برصغیرمیں ان کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ پھر فاضل راھواور رسول بخش پلیجو جیسے لوگ جنہوں نے محروم طبقات کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ پنجاب اس معاملے میں سندھ سے بہت پیچھے ہے۔ عورت مارچ کی تحریک سے بہت امید لگائی جا سکتی تھی لیکن مغرب زدہ مراعات یافتہ کلاس کی بیگمات اسے ’’ہائی جیک‘‘ کر لیں گی تو عورتوں کے مسئلے تو کیا حل ہوں گے، ایک انارکی سی پیدا ہو گی! اخبارات اور ٹی وی کو مسالہ البتہ خوب ملتا رہے گا۔ ٭٭٭٭٭ سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ مسلم لیگ کے لیے عورتوں کے مسائل ’’نان ایشو‘‘ ہیں۔ پیپلزپارٹی بڑھ چڑھ کر نعرے لگاتی ہے اور عورتوں کے حقوق کے مخلص حامی بھی اس میں بہت ہیں لیکن سندھ میں اس کی حکومت ہے، وہاں کی عورتیں پھر بھی، کم و بیش، اتنی ہی مظلوم ہیں جتنی کہ پہلے تھیں۔ تبدیلی والی سرکار نے عورتوں کے دکھ اور بڑھا دیئے ہیں۔ گھر عورتوں نے ہی چلانا ہوتا ہے اور سارے ریکارڈ توڑ دینے والی مہنگائی نے ان کے لیے گھر چلانے کا کام تقریباً محال کر دیا ہے۔ ’’عوام کو ریلیف دینا ہماری پہلی ترجیح ہے‘‘ کے مضمون والے حکومتی بیانات ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کسر پوری کر دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی مہنگائی کیخلاف ہلکی پھلکی تحریک چلا رہی ہے، مسلم لیگ سرے سے مہنگائی کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گھروں پر عذاب نازل ہے، یہ عذاب آنے والے د نوں میں اور بڑھے گا اور خواتین کے مسائل مزید گھمبیر ہوتے جائیں گے۔