نواب محمد اکبر خان بگٹی نے ایک دفعہ مجھے اپنی سوانح عمری لکھوانا شروع کی۔ آغاز میں انہوں نے اپنے بچپن کے واقعات، ایچی سن کالج کی یادیں اور خصوصاً اپنے اتالیق علامہ آئی آئی قاضی کا ذکر اسقدر تفصیل سے کیا کہ یوں لگتاتھا، اس سوانح عمری کے کئی سو صفحات اس عظیم شخصیت کی ہمہ جہتی کے لئے ناکافی ہوں گے۔ علامہ امداد علی قاضی 18اپریل1886ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی امام علی انصاری نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لئے گھر پر استاد رکھ کر دئیے جنہوں نے انہیں عربی، فارسی، سندھی اور اردو زبانیں ایسے سکھائیں کہ وہ ہر زبان پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ اس بنیادی تعلیم کے بعد والد نے انہیں معاشیات پڑھنے کے لیے 1907ء میں لندن سکول آف اکنامکس بھیج دیا۔ شاعرانہ اور فلسفیانہ طبیعت والے علامہ قاضی کو ایک جرمن خاتون سے محبت ہو گئی۔ علامہ قاضی لندن کے ریلوے سٹیشن پر سوار ہونے کے لئے آئے تو ٹرین روانہ ہو چکی تھی۔ وہ بھاگ کر آخری ڈبے میں سوار ہو گئے جس میں صرف ایک اکیلی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ شرمیلے نوجوان علامہ قاضی نے پورا سفر خاتون کی طرف پشت کر کے دروازے پر کھڑے ہو کر طے کیا۔ خاتون نے بار بار انہیں سیٹ پر اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا، لیکن علامہ صاحب معذرت کرتے رہے کہ وہ غلطی سے اس ڈبے میں سوار ہو گئے ہیں۔ مغربی ماحول میں پلی بڑی اس خاتون کے لئے یہ انتہائی حیرت کی بات تھی۔ اس نے علامہ قاضی کا پتہ پوچھا اور جس شخص نے اس کے دل میں گھر کر لیا تھا، اس کے تعاقب میں چل نکلی، 1910ء میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ نواب بگٹی کے بقول علامہ صاحب کی یہ بیوی ایلسا شاعری، فلسفہ اور علم و فضل میں کمال رکھتی تھیں۔ نواب اکبر بگٹی کو ان کے والد نے بچپن ہی میں علامہ صاحب کے سپرد کر دیا تھا تاکہ تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں۔ نواب صاحب نے دنیا بھر کی شاعری، فلسفہ، تاریخ ان کی رہنمائی میں پڑھا اور فرانسیسی زبان بھی اسی گھر میں سیکھی۔ وہ ان دونوں میاں بیوی کا اپنے والدین سے بھی زیادہ احترام کرتے تھے۔ نواب بگٹی نے دونوں کے دنیا سے جانے کا واقعہ جس طرح سنایا، لگتا تھا ہر طرف موت کا سکوت طاری ہو گیا ہو۔ انہیں نے کہا کہ جب یہ خاتون انتقال کر گئیں تو اس کے بعد اس گھر کا منظر ہی بدل گیا۔ اکیاسی سالہ علامہ قاضی زیادہ دیر یہ فراق برداشت نہ کر سکے اور ایک دن کاغذ پر یہ تحریر لکھی کہ ’’میں اپنی محبوبہ کے بغیر اس دنیا میں نہیں رہ سکتا، میں اس کے پاس جانا چاہتا ہوں‘‘، خراماں خراماں چلتے ہوئے دریائے سندھ کے پل پر آئے اور چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ نواب بگٹی یہاں تک سناتے ہوئے جب اس فقرے پر آئے، ’’وہ بوڑھاشخص ڈوب چکا تھا اور اس کا ہیٹ دریا کی لہروں پر تیر رہا تھا‘‘۔ تو انگریزی میں یہ فقرہ ادا کرتے ہوئے پہلی دفعہ میں نے اس پر ہیبت نظر آنے والے نواب کو عینک اتار کر آنکھوں کے کونے سے آنسو پونچھتے دیکھا۔ کیسے کیسے سخت جان لوگوں کو محبت پگھلا کر رکھ دیتی ہے۔ ایچی سن کالج، سول سروسز اکیڈمی، لندن اور دیگر مراحل بتاتے ہوئے وہ انتہائی خوش گوار اور خوش کن رہے، لیکن اس کے بعد انہوں نے برصغیر پاک و ہند کی بڑی بڑی شخصیات کے بارے میں انکشافات کرنے شروع کر دیے۔ یہ انکشافات ان کی ذاتی اور خاندانی زندگیوں کے بارے میں تھے جو کسی ایٹم بم سے کم نہ تھے۔ تھوڑے وقفے کے بعد میں نے انہیں کہا کہ آپ کو اندازہ ہے ان عظیم شخصیات کی اولادوں کے دل پر ان انکشافات سے کیا گزرے گی، تو انھوں نے مسکراتے ہوئے They Are Used To It، انہیں اس کی عادت ہے۔ اس کے بعد ہر ملاقات مجھ پر گراںگزرنے لگی۔ مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے ایسا کرتے ہوئے میرے ہاتھوں سے تاریخ کے اس گٹر کا ڈھکنا کھل جائے گا جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہوا ہے۔ یہ سینہ بہ سینہ تو منتقل ہوتا جا رہا ہے، لیکن ایسا کرنے سے یہ ایک دستاویز بن جائے گی۔ اس دوران نواب صاحب کے بیٹے سلال بگٹی جناح روڈ کوئٹہ پر گولیوں کا نشانہ بنتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کر گئے۔ نواب صاحب کوئٹہ سے ڈیرہ بگٹی منتقل ہو گئے اور ان کا کوئٹہ آنا جانا تقریباً ختم ہی ہو گیا۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بس فاتحہ خوانی تک محدود ہو کر رہ گیا۔ آخری دفعہ ان سے سلیم بگٹی کے بیٹے کے انتقال پر ملاقات ہو ئی۔ فاتحہ کے بعد اپنے بڑے دربار کے ساتھ والے کمرے میں لے گئے۔ اس دن ان کا باتیں کرنے کو بہت جی چاہ رہا تھا۔ تقریباً چار گھنٹے دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا صاحبِ مطالعہ شخص نہیں دیکھا۔ گفتگو کے دوران ایک لمحے کو رکے اور مجھے کہنے لگے، وہ سوانح عمری کب آرہی ہے۔ میں نے کہا وہ تو میرے مرنے کے بعد ہی آسکتی ہے۔ مسکرائے، مخصوص انداز میں مونچھیں اوپر کیں اور کہا، ’’ تمہیں مارنا تو بہت آسان ہے‘‘۔ لیکن انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ میں ان انکشافات سے پیدا ہونے والے ہیجان سے خوفزدہ ہوں۔ سچ بولنا اور لکھنا ہمت کی بات ہے، لیکن سچ کو برداشت کرنا کسی بھی معاشرے میں اس سے زیادہ حوصلے کی بات ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اس سوانح عمری کو مکمل کرنے یا اسے طبع کروانے کی بات نہیں کی۔ نواب صاحب کی حیثیت، مرتبہ اور شخصیت اسقدر ہمہ گیر تھی کہ وہ سچ بولنے، حقائق بیان کرنے اور منہ پر بات کہنے کی ہمت اور طاقت رکھتے تھے۔ ان کی پوری زندگی اس بات کی گواہ ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ وہ اذیت ناک سچ جو کسی شخص کی آئندہ نسلوں کو شرمندگی سے دوچار کردے اس سے نہ بولنا ہی بہتر ہے۔ میری ریٹائرمنٹ کے بعد لاتعداد ایسے میرے دوست اور ساتھی ہیں جو مجھے سوانح عمری لکھنے کا کہتے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے میں مسلسل اپنے انکار پر قائم ہوں۔ اس لئے کہ ایک تو پورا سچ اذیت ناک ہوتا ہے اور دوسرا مجھ میں بولنے کا حوصلہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ جب آپ کسی دوسرے کے بارے میں مکمل سچ لکھتے ہیں تو پھر اپنے بارے میں بھی مکمل سچ لکھنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ اپنے بارے میں مکمل سچ لکھنے کا حوصلہ میں نے کسی سوانح عمری لکھنے والے میں نہیں دیکھا۔ ہر کسی نے اپنے کردار پر پردہ ڈالا اور دوسروں کے کردار کو اچھالا ہے۔ میرے ملک میں سوانح عمری لکھنے والوں یا یاداشتیں مرتب کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جرنیل اور ریٹائرڈ سفارتکاروں کی ہے۔ یہ سب وہ ہیں جن کی زندگیاں گذشتہ پچاس سالوں سے ہماری آنکھوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ یہ ’’عظیم‘‘ مصنفین تمام عمر جس ظلم، جبر، دھوکہ، فریب اور کرپشن کا حصہ رہے ہوتے ہیں، آخری عمر میں اسی کے خلاف کتابیں لکھ کر اپنا دامن گناہوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ آج سے بیس سال قبل جب میں نے کالم نگاری شروع کی تو میرے ابھی سول سروس کی نوکری کے سولہ سال باقی تھے۔ مجھے ان جیسے بزرگ مسلسل مشورہ دیتے رہے کہ حکومت کے خلاف لکھنا اور بولنا تو ریٹائرڈمنٹ کے بعد زیب دیتا ہے، چپ کرکے نوکری کے مزے لوٹو اور بہترین پوسٹنگ حاصل کرو۔ جس پر میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ اگر میں ابھی سچ نہیں بولوں گا تو پھر ریٹائرڈمنٹ کے بعد مجھے سچ بولنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ نوکری کے آخری سولہ سال اس نے مجھے کھڈے لائن پوسٹنگز، انکوائریوں اور پروموشن سے انکار کے باوجود صبر کا حوصلہ دیا اور لکھتے رہنے پر استقامت بخشی۔ ایسی زندگی گزارنے کے باوجود بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر میں سوانح عمری لکھوں گا تو وہ ادھورا سچ ہوگی۔ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ عمر بھر جھوٹ کا ساتھ دینے والے آخری عمر میں جو کچھ لکھتے ہیں لوگ انہیں مکمل سچ کیسے مان لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر تاریخ بھی مرتب کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔