کمزوریاں تو بہت ہیں مجھ میں، آج اپنی ایک کمزوری کا اعتراف کرتا ہوں،اور وہ ہے ،مجھے،جہاں جانا ضروری ہو وہاں جاتا نہیں ہوں اور اگر جاتا ہوں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ،مجھے آپ منیر نیازی صاحب کی نظموں کی تصویر کہہ سکتے ہیں، دوسری جانب کبھی ادھورے چھوڑے ہوئے کسی کام کو بھولتا بھی نہیںہوں ، ،ہزاروں ادھورے کاموں کی گٹھڑی کو دل کے دروازوں میں بند کر رکھاہے،میں اپنی ان سب کوتاہیوں کو اپنا سرمایہ سمجھتا ہوں۔ انسان کو اپنے کچھ غموں کا بوجھ تو سر پر رکھے رکھنا چاہئیے ، میں ہر محبت کو ہی نہیں ہر نفرت کو بھی یاد رکھتا ہوں ، محبتیں تو خود اپنی جگہ بناتی رہتی ہیں اور اگر دوسروں کی نفرتیں سنبھال کر نہ رکھی جائیں تو پھر محبتوں کی اہمیت کہاں باقی رہ جائے، مجھ سے لاکھوں لوگوں نے محبت کی، لیکن جن دو چار نے کبھی کینہ پروری کی ،اور نفرت کی آگ میں جلے ، میں نے انہیں نظر انداز کرنے کی بجائے اور زیادہ اہمیت دی ، نفرت کرنے والوں کو کھیل تماشے میں لگا دینا ہی تو اصل جیت ہے، کوئی آپ کے پر کاٹنے کو پھر رہا ہو اور آپ اسے باور کرا رہے ہوں میں آپ کی چالاکیوں کو نہیں جانتا۔میرے لئے مشکل ترین اور بوجھل ترین کام کسی کے ساتھ تعزیت کرنا ہے، مجھے تعزیت کے آداب ہی نہیں آتے،دوسروں کا ہر درد مجھے پہاڑ لگتا ہے اسی لئے اپنے اندر کے ڈھیر سارے بوجھ زمین پر نہیں اتارتا، منیر نیازی صاحب کی نظم کے چند اشعار اور پھر اسی موضوع پر واپس آتے ہیں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں بہت دیرینہ رستوں پرکسی سے ملنے جانا ہو ضروری بات کہنی ہوکوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہواسے واپس بلانا ہو کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو حقیقت اور تھی کچھ اس کو جاکے یہ بتانا ہو میں روزانہ لا تعداد ایسے لوگوں کے فون بھی سنتا ہوں،جو میرے واقف ہی نہیں ہوتے اور ان کی باتوں کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، پچھلے چند مہینوں میں دو فون ایسے بھی سنے جن کا مضمون ایک جیسا تھا، ایک کال کرنے والے نے بتایا کہ اس کے والد بیماری کی آخری اسٹیج پر ہیں اور وہ مجھے ملنا چاہتے ہیں، میں نے اس شخص سے اس کے گھر کا ایڈریس لیا اور آنے کا وعدہ کر لیا، ہفتے دو ہفتے بعد اسی آدمی نے کال کرکے بتایا، اس کے والد انتقال کر گئے ہیں، اس کے چند ہفتوں بعد ایسا ہی دوسرا واقعہ پیش آیا، ایک شخص اپنے باپ سے ٹیلی فون پر میری بات کرا رہا تھا، مجھے اس کے والد کی کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، اس شخص نے بتایا کہ اس کے والد نے اپنی کمزور انگلیوں سے آپ کا نام لکھا اور ہمیں کہا کہ اس بندے سے میری بات کرائیں۔ ہمیں بھی پتہ نہیں چل رہا کہ وہ آپ سے کیا کہنا چاہتے ہیں، آپ کا موبائل نمبر تلاش کرکے انکی آپ سے بات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، میں نے ان سے بھی ان کے گھر کا ایڈریس لے لیا،اور وہاں جانے میں بھی دیر کردی اور اس بزرگ کے چلے جانے کی اطلاع آگئی، میں ان دونوں کے گھروں میں فاتحہ خوانی کیلئے بھی نہ جا سکا، کیا آپ کو اب بھی مجھ پر کوئی شبہ ہے کہ میں ہر کام میں دیر کرتا رہا اور اسی طرح نہ جانے کون کون میرے انتظار میں آگے چلا جاتا رہا، میری کوتاہیوں نے مجھ سے میرے اس طرح کے کئی پیارے چھینے ہونگے، میں تو ادراک اور اعتراف کر ہی رہا ہوں۔ آپ بھی سوچئیے، کہیں آپ بھی تو میری طرح کے انسان نہیں ؟ ان دو انجانے لوگوں کے میرے انتظار میں چلے جانے کے بعد میں نے سوچا، سینکڑوں ایسے لوگ ابھی باقی ہیں مجھے جن سے ملنے جانا تھا، جہاں جہاں ہو سکے مجھے اب چلے جانا چاہئے۔ صرف دو تین واقعات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اچھرہ کے مضافات میں رحمان پورہ اور اس سے ملحقہ ایک چھوٹی سی آبادی کرم آباد، وہاں ایک بڑھیا رہتی تھی جس کا خاوند کسی درزی خانے میں مزدوری کرتا تھا، اس جوڑے کا بیٹا محکمہ پولیس میں بھرتی ہو گیا، میری اس سے شناسائی ہوئی تو کبھی کبھی اس گھر میں جانا شروع کر دیا۔ پھر ایک عرصہ بعد وہاں آنا جانا کچھ ایسے ختم ہوا کہ مہینے، سال اور دہائیاں گزر گئیں، اس دوران کئی مرتبہ وہاں جانے اور ان بزرگوں کی ڈھارس بندھانے کا خیال تو آیا مگر وہاں کبھی جا نہ سکا، بابا اور بڑھیا کے انتقال کر جانے کی خبریں مجھے اسی محلے میں رہنے والے دوست محمد علی چراغ نے دیں، پھر محمد علی چراغ بھی بجھ گیا، اب دو ہفتے پہلے میں اس گھر تک پہنچ ہی گیا جہاں وہ بوڑھا جوڑا رہتا تھا،اب وہاں اس بزرگ جوڑے کے لواحقین نہیں ان لواحقین کے جوان بچے ملے، میں جن سے تعزیت کرنے گیا تھا وہ اس جہاں سے اٹھ چکے تھے۔۔ میں نے بہت دیر کردی تھی۔ پھر مجھے پنتالیس برس پہلے ملنے والا ایک معذور درزی اور اس درزی کی بوڑھی خالہ یاد آئی، میں نے کھوج لگائی تو پتہ چلا وہ دونوں زندہ ہیں اور تندرست ہیں، میں اس بڑھیا کے گھر پہنچا، وہ واقعی تندرست تھی، چار پائی پر بیٹھی حقہ پی رہی تھی، مجھے اس محلے کی ایک خاتون نے اس تک پہنچایا اور اسی نے اسی نوے سال کی اماں فضل سے پوچھا،، اماں تمہارے گھر میں ایک پروہنا آیا ہے، پہچانو، کون ہے یہ۔۔ اماں فضل نے مجھے دیکھا، میرا نام لیا اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں بہت چھوٹا تھا، ایک دن کسی ہمسایہ کے گھر کھیل رہا تھا گلی میں کھلونے بیچنے والا آیا، دل کھلونا لینے کو مچلا تو اس گھر کی ایک جوان لڑکی نے دس روپے دے کے مجھے وہ کھلونا خرید دیا، تھوڑا سا بڑا ہوا تو اس لڑکی کے دس روپے لُٹانے کا خیال آیا، زندگی کچھ اور آگے بڑھ گئی۔ پھر نئے نئے موڑ آنے لگے، جب ایک ٹھہراؤ آگیا تو مجھے ان دس روپوں کی واپسی کا خیال شدت سے آنے لگا، مجھے بہت اچھی ملازمت مل گئی، میرے پاس گاڑی بھی آ گئی، وہ دس روپے میری جان نہیں چھوڑ رہے تھے، کئی بار گاڑی سڑک پر لگاکے اس گھر میں جانے کا سوچا، ہمت نہ ہوئی، کئی سال اور بیت گئے، ایک دن اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا ہی دیا، پہلے چھوٹے چھوٹے بچے نکلے پھر دو جوان مرد، ان سے پہلے تو اس لڑکی کی والدہ کا پوچھا، پتہ چلا کہ اس خاتون کا کئی سال پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا،،، پھر میں نے جھینپتے جھینپتے اس عورت کی اس بیٹی کا پوچھا جس کا میں دس روپوں کا مقروض تھا، ان دو مردوں نے جو اس کے چھوٹے بھائی تھے،، بتایا کہ باجی کی دس سال پہلے شادی ہو گئی تھی اسے ان کاشوہر امریکہ لے گیا اور اب وہ وہیں سیٹل ہیں اپنے بچوں کے ساتھ۔ ٭٭٭٭٭ اسی طرح اور بھی تو کئی محبتیں تھیں، بچپن کی محبتیں،اوائل عمری کی محبتیں، جوانی کی محبتیں، ان ساری محبتوں میں کئی محلے اورگلیاں بھی تھیں کئی چوبارے بھی تھے، کئی یار بھی تھے کئی یارانے بھی تھے، کچھ پیارے شہر سے دور ہی تھے، کچھ پیارے وطن سے باہر بھی تھے، ان سب یادوں کو اب بھی زندہ رہنا چاہئے، لیکن انہیں زندہ رکھنے کیلئے ان کے لئے اپنی غفلتوں کو مار بھی تو دینا چاہئے، وقت گزر جائے تو پیار محبت مزار بن جاتے ہیں، ہمیں اپنے اپنے پیار کی آبیاری کرتے رہنا چاہئیے، موسموں کا کیا اعتبار جو محبتوں کو بھی اٹھا کر سات سمندر پار چلے جاتے ہیں، مجھے اپنی ایک ایک محبت یاد ہے اور ان تمام محبتوں کے کروڑہا لمحات بھی۔ آپ بس ذرا پوچھ کر تو دیکھیں۔۔ یادوں کی برسات کا یہ سلسلہ انشاء اللہ جاری رہے گا، بشرط پسندیدگی۔