یہ بلاول بھٹو زرداری کو کیا ہوا؟ نواز شریف کی چھ ہفتوں کیلئے طبی بنیاد پر رہائی کے بعد پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر نے اچانک پینترا بدل لیا، جونہی نواز شریف جاتی عمرہ پہنچے، بلاول نے نواز اور عمران خان کو ایک جیسے لیڈر قرار دیدیا، اور کہہ ڈالا کہ اصل میں دونوں ایک ہیں،، حالانکہ بلاول ایک دن پہلے تک نواز شریف کی جیل میں علالت پر تشویش کا اظہار ہی نہیں یہ مطالبہ بھی کر رہے تھے کہ ان کا علاج ان کی مرضی کے ڈاکٹرز اور اسپتال میں ہونا چاہیے، سابق وزیر اعظم کی رہائی کے بعد بھٹو کے نواسے نے کہا ہے کہ نواز اور عمران کی اقتصادی پالیسیاں ایک جیسی ہیں، دونوں دولتمند طبقے کے نمائندے ہیں اور ان دونوں کا منشور امیر کو امیر تر کرنا ہے، نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں عمومی تاثر اور رائے یہی ہے کہ وہ مستقبل میں ن لیگ کو چلائیں گے ضرور مگر وزارت عظمی کے امیدوار کبھی نہیں بنیں گے، وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید نے دعوی کیا ہے کہ عدالتی فیصلہ میاں شہباز شریف کی بارگیننگ کا نتیجہ ہے، خود کو وزیر اعظم کا سیکنڈ مین کہلوانے والے یہ وفاقی وزیر یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہیں۔؟ یقیناپردے کے پیچھے کچھ تو ہوگا، اور تو اور نواز شریف کو عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بھی نواز شریف کی صحت یابی کیلئے دعا فرمائی، جیسے وہ پہلے اپنے پیش رو کی بیماریوں سے ناواقف تھے۔۔۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ نواز شریف نے قیدی کی حیثیت سے پاکستان کے کسی بھی اسپتال جانے سے انکار کر دیا تھا، اور ان حالات میں میڈیا بھی ان کی مبینہ بگڑتی ہوئی صحت پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہا تھا، اگر واقعی نواز شریف کو جیل میں کچھ ہوجاتا تو سارا الزام حکومت کے سر آجاتا،،،، بے شک سچا انصاف پانے کے لئے کسی بھی پاکستانی شہری کو نواز شریف جیسے وصف کا حامل ہونا لازمی شرط ہے میں اس موضوع پر اپنی رائے نہیں دینا چاہتا، میں نے تو صرف وہ کہا ہے جو ہمارا سماج کہہ رہا ہے، ہاں! میں نواز شریف کو ریلیف ملنے کے دن کی عدالتی کارروائی کے دوران معزز ترین جج صاحبان کے ریمارکس ایک بار پھر سامنے لانا چاہوں گا، حالانکہ یہ وہی ریمارکس ہیں جو ہر پاکستانی کو از بر ہو چکے ہیں عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کوئی اضافی دستاویزات جمع کرائی ہیں؟ جواب میں خواجہ حارث نے برطانوی ڈاکٹر کا ایک خط پیش کیا جو انہوں نے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو لکھا تھا، وکیل کا کہنا تھا کہ یہ نواز شریف کے معالج ہیں، عدالت عظمی کے سربراہ نے کہا، یہ تو دو آدمیوں کے درمیان خط و کتابت ہے،کیا ہم اس خط کو من و عن تسلیم کرلیں؟آپ ایک خط کو طبی بنیاد پر کیس بنا رہے ہیں، عدالت نے اس خط کو مسترد کرتے ہوئے پوچھا، کیا نواز شریف کے مرض کا کوئی اور ثبوت نہیں ہے آپ کے پاس؟ اس سے پہلے چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیے کہ نواز شریف کی جن بیماریوں کی آپ بات کر رہے ہیں انہیں یہ بیماریاں پچھلے سترہ سال سے لاحق ہیں، ان بیماریوں کے باوجود وہ خاصی متحرک اور معمول کی زندگی گزارتے رہے، ضمانت کیلئے طبی بنیاد تب ہی بنے گی جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو، پھر فیصلہ محفوظ ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد نواز شریف کو چھ ہفتوں کی ریلیف مل گئی، کوئی پرانی نظیر ہے یا نہیں اس بات کو چھوڑ دیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ اب جیلوں میں بند بیمار قیدیوں کو طبی بنیاد پر ریلیف ملنے کی مثال قائم ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات نہ کوئی نئی بات ہے نہ انہونی، گھریلو خواتین پر تشدد تو شاید ہماری ثقافت میں شامل ہو چکا ہے، لاہور میں دو دن پہلے اسی قسم کے دو واقعات رونما ہوئے، ایک واقعہ نے میڈیا کی شہہ سرخیوں کا حصہ بنا رہا، ایک خاوند نے نوکر کے ساتھ مل کر اپنی بیوی کو اس جرم میں تشدد کا نشانہ بنایا کہ بیوی نے اس کے دوستوں کے سامنے رقص کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تشدد کے ساتھ اس کو برہنہ کیا اور پھر سر کے بال بھی کاٹ دیے اس خاوند نے یقینااپنی بیوی کو یہ حکم پہلی بار نہیںدیا ہوگا، بے چاری نہ جانے کب سے یہ سزا جھیل رہی ہوگی اس دن بیوی کا انکار ، بیوی کی بغاوت اس کا جرم بن گئی اور تشدد کے ساتھ اس کے سر کے سارے بال بھی کاٹ دیے گئے، اسما سب سے پہلے لاہور پولیس کے حاکم کے دفتر پہنچی جہاں اس کی شنوائی کیا ہونا تھی اسے وہاں سے دھکے مار کر نکال دیا گیا۔ وہ پھر اپنے ننگے اور گنجے سر کے ساتھ تھانے پہنچی تو پرچہ کٹوانے کیلئے اس سے پانچ ہزار روپے رشوت مانگی گئی، ایف آئی آر کٹی ایسی دفعات کے ساتھ جن میں آسانی سے ضمانت ہوجاتی ہے، اس عورت کے خلاف جو جرم ہوا اس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ تین سو چون اے کے تحت پرچہ درج ہونا چاہئیے تھا، یہ قانون کی کتابوں میں لکھا ہے، اس جرم کی سزا موت بھی ہے اور عمر قید بھی مگر ایسا نہ ہوا، پانچ ہزار رشوت لے کر بھی کیونکہ دوسرے فریق سے پولیس نے لاکھوں کی رشوت لینا تھی۔ ماہرین قانون بتا رہے ہیں کہ اسما اب بھی یہ مقدمہ اعلی عدلیہ کے سامنے رکھ سکتی ہے، نواز شریف کو ریلیف دینے والی عدلیہ بھلا اس کو انصاف کیوں نہیں دے گی؟ اب میں اس واقعہ کی وسیع تر تشریح اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں، اسما ہمارے معاشرے کی پہلی اور آخری عورت نہیں ہے جس کے ساتھ یہ ہوا، ایسے خاوندوں کی تعداد بھی بہت ہے اور ایسی اسمائیں بھی بہت ہیں ‘جو یہ سب کچھ جھیل رہی ہیں، اور اس تصویر کا تیسرا رخ تو بہت ہی بھیانک ہے، اس رخ کے نقوش ابھارنا بھی کوئی آسان کام نہیں، معاشرے کی ان تصویروں سے کبھی بھی اور کسی بھی دور میں حکمران طبقے ناواقف نہیں رہے، مجھے کوئی بتائے کہ وہ کون سا دور تھا جس میں کسی نہ کسی تعداد میں ارکان اسمبلی خود ملوث نہ رہے ہوں، ارکان پارلیمنٹ کی سرکاری رہائش گاہوں پر شراب و کباب کے ساتھ مجبور عورتوں کو بلوانے کا دھندا کب نہیں ہوا؟ ان سرکاری رہائش گاہوں پر ارکان اسمبلی کے رشتے دار اور دوست ماضی کے کس دور میں یہ سب نہیں کرتے رہے؟ بات دوسری جانب نکل گئی میں نے تو آپ کو بتانا تھا کہ گھروں میں ڈانس پارٹیوں کے کتنے چہرے ہیں؟ تو جناب سنئے! نچلے اور نام نہاد درمیانہ طبقے میں ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو اپنی مرضی ،منشاء اور رضا سے خود خاوندوں سے مل کر ایسی پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں اور ان پارٹیوں میں ناچتی ہیں۔۔۔؟ کیوں؟ کیوں؟ جناب! گھر چلانے کیلئے‘ گھر کا کرایہ ادا کرنے کیلئے، بچوں کے اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کے لئے، یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے کے لئے، پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے۔۔۔ رشتے داریاں نبھانے کے لئے، اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے۔۔۔ بیمار بچوں کے علاج کیلئے، ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں دینے کیلئے۔ ہم ان سماجی پہلوؤں پر گفتگو کرنے سے کتراتے ہیں، ہم ان المیوں پر لکھتے ہوئے شرماتے ہیں، ہمیں ہماری اخلاقیات کا لحاظ آ جاتا ہے، ہم یہ سوچ کر بھی ڈر جاتے ہیں کہ ان باتوں کا ہمارے بچوں کو نہ پتہ چل جائے، اس موضوع پر کبھی کوئی سیمینار ہوا نہ کبھی کوئی مباحثہ۔ہم تو بس خبریں چھاپنے اور خبریں پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان خبروں پر چٹخارے دار گفتگو کرنے کے۔کچھ اخبارات ایسے بھی ہیں جو ڈانس پارٹیوں ، ہوٹلوں اور قحبہ خانوں سے پکڑی جانے والی لڑکیوں اور عورتوں کی تصویریں بھی چھاپتے رہے ہیں، جو تھانہ گرفتاریاں کرتا ہے وہ پریس والوں کو بھی بلوا لیتا ہے، پھر تصویر چھاپنے اور نہ چھاپنے کے سودے بھی کئے جاتے ہیں۔سینکڑوں ہزاروں گھر اور خاندان اجڑ گئے ، معاشرتی اور حکومتی بے حسیوں کے باعث، ہماری انفرادی اور اجتماعی بے حسی کے باعث، یہ وہ ملک ہے جہاںزکوٰۃ کے لئے جمع ہونے والی رقوم ترقیاتی کاموں پر اور غیر ملکی دوروں پر خرچ ہوتی رہی۔ کوئی نہیں سوچتا کہ بحیثیت مجموعی ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا معاشرہ کہاں کھڑا ہے۔