کچھ دِن ہوئے،مَیں سپرمارکیٹ میں تھا،عینک بیچنے والا آگیا۔

اُس نے کئی عینکیں ،زبردستی مجھے دکھائیں،ہر ایک کی الگ خوبی بھی بیان کی۔

ایک عینک کی خوبی یہ بتائی، آنکھوںپر لگا ئوگے تو یوںلگے گا جیسے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

مذکورہ عینک میںمیری دلچسپی دیکھ کر ، مزید کئی خوبیاں بھی گنوادیں۔

جب قیمت پوچھی تو بولا’’پندرہ سورپے‘‘

مَیں نے قیمت سن کر فوراًواپس کرنا چاہی،مگر اُس نے نہ لی،اور پوچھا’’کتنے کی خریدیں گے؟‘‘

مَیں نے کہا ’’تین سو‘‘یہ سن کر عینک فوراًمیرے ہاتھ سے لے لی۔

مَیں بھی چل پڑا،تو وہ گاہک ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بولا۔

’’یہ لیں ،کیا یادکریںگے‘‘مجبوراًمجھے لینا پڑگئی۔

ملک میں گرمی کی شدیدلہر شروع ہوگئی۔

آج کل کراچی،لاہور،ملتان وغیر ہ سے دوستوںکے فون آتے ہیں، تو موسم کی بھی ضرور بات ہوتی۔

وہ شدید گرمی کا رُونا رُوتے ہیں۔

پھر مجھ سے پوچھتے ہیں’’تمہاری طرف کیسا موسم ہے؟‘‘

مَیں  بتاتا  ہوں’’ یہاں تو گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں‘‘