حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو خذیمہ کے عظیم چشم و چراغ تھے آپ کی کنیت ابو محمد ،اسم گرامی عبداللہ اور آپ کا شمار السابقون الالون اور جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔آپ رضی اللہ علیہ ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی اور سیدالشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے ہیں۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دارارقم میں داخل ہو نے سے قبل اسلام قبول فرماچکے تھے ۔ آپ کی والدہ ماجدہ امیمہ بنت عبدالمطلب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی جان ہیں ۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل آپ انتہائی پاکیزہ فکر اور ہر قسم کی فرسودہ رسوم سے پاک و صاف رہتے تھے ۔قبول اسلام کے بعد امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حبشہ کی ہجرت فرمائی اور انتہائی جرات وبہادری کا مظاہرہ فرمایا۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ہجرت مدینہ کے بعد حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو اکہ مکہ مکرمہ میں ان کے مکان پہ ابوجہل نے قبضہ کرلیا ہے تو آپ کو بہت تکلیف ہوئی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے بڑی محبت سے مکان بنایا تھا مگر پتہ چلا ہے کہ ابوجہل نے میرے مکان پہ قبضہ کرکے اس کے حسن کو خراب کردیا ہے جس پہ میرا دل رنجیدہ ہے ۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ائے عبد اللہ کیا تو اس بات پہ راضی نہیں کہ اللہ تعالی اس کے بدلے تمہیں جنت میں اعلیٰ محل عطا فرمائے ۔آپ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں میں اللہ تعالی کی عطا پہ راضی ہوں اور عرض کیا یارسول اللہ یہ سن کر میرا دل خوش ہوگیا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں ۔ مشکل ترین ایام میں جن اکابرین صحابہ کرام نے دین اسلام کے لیے خدمات پیش کیں ان میں آپ کااسما گرامی بھی شامل ہے ۔ ہجرت مدینہ کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ علیہ کے ساتھ مواخات قائم کی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے اس مواخات کو شاندار انداز سے نبھایا ۔حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے تمام عمر امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کی۔ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ پہلے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کو سب سے پہلے کسی فوجی دستے کی کمان عطا کی گئی۔ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں بڑی جانفشانی سے جہاد میں حصہ لیا اور پھر تین ہجری غزوہ احد میں جوانمردی اور جرات کی تاریخ رقم کی میدان احد میں لڑتے لڑتے آپ کی تلوار ٹوٹ گئی مگرآپ کے شوق جہاد میں کوئی کمی نہیں آئی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے اور حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے مابین ایک یادگار ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا کہ دونوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں غزوہ احد کے دن دعا مانگی یا اللہ ہمارا کسی سخت اور ظالم دشمن کے ساتھ مقابلہ ہو ۔ حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یااللہ میرا مدمقابل دشمن انتہائی سخت گیر ہو تیری رضا کے لیے وہ میرے اعضاء کو کاٹ دے اور میں قیامت کے دن تیری بارگاہ میں یوں حاضر ہوں کہ میرا جسم کٹا ہوا ہو اور تو مجھے مقام رضا پہ فائز کرے اور اسی کے ہاتھوں جام شہادت عطا کرنا قیامت کے دن میں تیری بارگاہ میں سرخرواور کامیاب ہو کر حاضر ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کی دعا قبول ہوئی۔ جس طرح آپ نے دعا مانگی تھی بلکل اسی طرح دشمنوں کو کاٹتے چلے گئے اور بالآخر غزوہ احد تین ہجری پندرہ شوال المکرم کو ایک ظالم نے آپ کے جسم مقدس کے مختلف اعضاء کو کاٹ دیا، بڑی بے دردی کے ساتھ آپ کو شہید کیا مگر آپ نے اف تک نہیں کیا ۔آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اورامام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیدالشہداسیدناامیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک ہی قبر انور میں دفن فرمایا ۔اسلامی تاریخ کا یہ عظیم الشان حسن آپ جیسی نابغہ ٔ روزگار شخصیات کا مرہون منت ہے ۔