جموں وکشمیر کی تاریخ نہ صرف خونیں سانحوں سے بھری پڑی ہے، بلکہ باضابطہ ایک منصوبہ کے تحت ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ بیشتر واقعات میں سرکاری مشنری نے ان کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسا ہی ایک دلدوز سانحہ 21اور22مارچ 2000ء کی رات کو جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاوٰں میںپیش آیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس گاوٗں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں 35نہتے اور معصوم سکھ افراد ہلاک کئے گئے۔ اسکے چند روز بعد ہی جب کلنٹن ابھی بھارت میں ہی تھے ، کہ بتایا گیا کہ اس سانحہ میں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے وابستہ بیرونی عسکری ملوث تھے، اور پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کو فوج اور پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے گھیر کر ہلاک کر دیا۔ جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ پانچوں افراد مقامی کشمیر ی دیہاتی تھے اور ان کو گھروں سے پٹرل پارٹی کو گائیڈ کرنے کیلئے اٹھا یا گیا تھا۔ ان میں ایک دکاندار تھا، جس کو دکان بند کرتے وقت جیپ میں بٹھایا گیا تھا۔ جب متعلقین اس ہلاکت پر احتجاج درج کراوانے کیلئے ضلعی ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کررہے تھے، تو راستے میں براک پورہ کے مقام پر ان پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کیا گیا۔ پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔دوسری طرف کشمیر اور باہر پنجاب میں سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں یک رکنی کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کا حکم دے دیا۔ ایک سال بعد جب کلکتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ ہلاک شدگان اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے جو ٹیسٹ کیلئے بھیجے گئے تھے، نقلی تھے تو اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔ خیر دونوں عدالتی کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کاروائی کرنے کی سفار ش کی۔ ہاں جی ہا ں، وہی فارو ق خان، جن کو ریاست کو تحلیل کرنے اور خصوصی پوزیشن ختم کرنے سے چند روز قبل کشمیر میں گورنر ستیہ پال ملک کا مشیر مقرر کیا گیا۔ فاروق عبداللہ کی حکومت نے ان کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے جانشین مفتی محمد سعید پر بھارت کی وزارت داخلہ نے ان کو بحال کرنے کیلئے خاصا دباوٗ ڈالا، مگر وہ ڈٹے رہے۔ 2005ء میں جب کانگریسی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے قلمدان سنبھالا ، تو انہوں نے فاروق خان کی بحالی کے احکامات صادر کر دیئے۔ وہ 2013ء میں ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور فوراً ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر قومی سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی سے متعلق پہلی رٹ پیٹیشن انہوں نے ہی کورٹ میں دائر کی تھی۔ جسٹس پانڈین کمیشن کی تقرری ہی چھٹی سنگھ پورہ اور اسکے بعد رونما پذیر واقعات کی تفتیش کیلئے کی گئی تھی۔ چارچ سنبھالنے کے بعد جب جج صاحب نے ان علاقوں کا دورہ مکمل کیا، توحیرت انگیز طور پر ان کو بتایا گیا کہ اپنی تحقیق و تفتیش صرف براک پورہ میں ہجوم پر ہوئی فائرنگ تک ہی محدود رکھیں۔ اکتوبر 2000ء میں وہ نئی دہلی کے کشمیر ہاوس میں اپنی رپورٹ مکمل کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک دن میں ان سے ملنے پہنچا ، تو ایک ہی کمرے میں ایک طرف ان کے اہل خانہ مقیم تھے اور دوسرے کونے میں وہ اسٹینو اور سیکرٹری کو رپورٹ ڈکٹیٹ کر رہے تھے۔ وہ ابھی بھی مصر تھے کہ چونکہ چھٹی سنگھ پورہ ، پتھری بل اور براک پورہ کے واقعات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، اسلئے انکو سکھوں کے قتل عام کی تفتیش کی بھی اجازت دی جائے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید کوئی کڑی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اکتوبر کے اواخر میں جب انہوں نے سرینگر میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو رپورٹ پیش کی، تو اسوقت بھی انہوں نے چھٹی سنگھ پورہ کے واقعہ کی تحقیق کی اجازت طلب کی۔ کابینہ کی میٹنگ میں پانڈین کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں فاروق عبداللہ نے ا علان کیا کہ جوڈیشل کمیشن سکھوں کے قتل عام کی بھی تحقیقات کرے گا اور کابینہ نے اس سفارش کو منظوری دی ہے۔ خیر رپورٹ پیش کرنے کے بعد جسٹس پانڈین واپس دہلی آکر نئے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے، کہ میں ان سے ملنے کیلئے کشمیر ہاوس پہنچا۔ دیکھا کہ جسٹس صاحب اور انکی فیملی ریفوجیوں کی طرح ریسپشن کے پاس کھڑے ہیں۔ لابی میں ان کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ان کا سیکرٹری کشمیر ہاوس کے ذمہ داروں کو قائل کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمیشن کو اگر توسیع نہیں ملتی ہے تو بھی یہ ابھی تحلیل نہیں ہوا ہے، اور کئی انتظامی امور کے مرحلے ابھی باقی ہیں۔آخر وہ کیسے سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس جس کی خدمات ریاستی حکومت نے مستعار لی ہیں، کمرے سے اس طرح بے دخل کرسکتے ہیں۔ مگر افسران کا کہنا تھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ جسٹس صاحب سے کمرہ خالی کروانا ہے اور کسی وزیر کو اس میں قیام کرنا ہے۔ بعد میں قریب میں ہی تامل ناڈو ہاوٗس نے جسٹس پانڈین اور ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا اور اسکے چند روز بعد وہ مدراس (چنئی) روانہ ہوگئے۔ روانہ ہونے سے قبل انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ چھٹی سنگھ پورہ اور بعد میں جولائی2000 میں پہلگام میں ہندو یاتریوں کے قتل عام کی تحقیقات کرنے والی لیفٹنٹ جنرل جے آر مکرجی کمیٹی رپورٹ کے مندرجات اور ان کی سفارشوں پر کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ کور کماندڑ جنرل مکرجی کی رپورٹ نے پہلگام میں ہندو زائرین کی ہلاکتوں کیلئے نیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی، کہ آخر حکومت ان سانحوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟کس کو بچایا جا رہا تھا؟ (جاری ہے)