ملکی سیاست کی طرح عالمی سٹیج پر بھی مخالفوں کو دیے گئے بعض ’’خطابات‘‘ ہٹ ہو جاتے ہیں چند عشرے پہلے ایران کے رہبر انقلاب خمینی صاحب نے امریکہ کو شیطان بزرگ کا خطاب دیا جو بہت مقبول ہوا۔ اگرچہ ہمارے ملک میں لوگ قدرے حیرت زدہ نظر آئے کہ امریکہ کو شیطان کہنا تو ٹھیک ‘ بزرگ کہنے کا کیا مطلب۔ آہستہ آہستہ پھر انہیں پتہ چلا گیا کہ بزرگ کے معنے ’’بڑا‘‘ ہونے کے ہیں یعنی بڑا شیطان۔ ایک دلچسپ خطاب اس ہفتے پھر ایران ہی کی طرف سے آیا ہے لیکن بجائے مقبول ہونے کے باعث اشتعال بن گیا ہے۔ تہران کے مرکزی امام محمد علی موحدی نے عراق میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو تنقید اور مذمت کا ہدف بنایا اور انہیں ’’انگریز شیعہ‘‘ قرار دیا۔ ایران میں انگریز یا امریکی ہونا ایک طرح سے گالی ہے‘ عراق میں صورتحال ایسی نہیں۔ وہاں امریکہ کو ’’نجات دہندہ‘‘ کہا جاتا ہے اور انگریز ہونا بھی اتنی بری بات نہیں ہے۔ عراق میں چند ہفتوں سے مظاہرے ہو رہے ہیں اور دن بدن ان میں زور آتا جا رہا ہے۔ یہ مظاہرے جنوبی ملک میں ہو رہے ہیں جہاں بھاری اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ شمال کا کرد اور مغرب و شمال مغرب کے سنی علاقے میں خاموشی ہے۔ حالیہ مظاہرے مہنگائی کے خلاف شروع ہوئے اور اب یہ حکومت گرائو مہم بن چکے ہیں۔ عراقی حکومت ایران کی آلہ کار سمجھی جاتی ہے جبکہ مظاہرین کو دو بڑے رہنمائوں آیت مقتدیٰ صدر اور آیت اللہ سیستانی کی حمایت حاصل ہے۔ عراق میں تحریک نے براہ راست ایران مخالف رنگ اختیار کر لیا ہے اور سارے جنوبی عراق میں ایرانی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور ایرانی رہنمائوں کے پتلے جلائے جا رے ہیں۔ کوئی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے یہ عربی اور فارسی کی جنگ ہے اس لئے کہ کرد علاقے کو چھوڑ کر باقی سارا ملک عرب ہے۔ ایران کے پاسداران کمانڈر جنرل سلیمانی گزشتہ ہفتے عراق آئے اور حکومت بچانے کی تدبیر کی لیکن حکومت سخت دبائو میں ہے۔ جنوبی عراق کے تمام شہروں یعنی بغداد‘ بصرہ‘ کربلا‘ ناصریہ ‘ ھلہ وغیرہ میں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں اور فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکت کا سلسلہ بھی نہیں تھم سکا۔ عراق کی طرح لبنان بھی عوامی بے چینی کی زد میں ہے۔ حزب اللہ کے غلبے والی حریری سرکاری ختم ہو چکی ہے اور اب وہاں کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ نیا سیٹ اپ کس طرح بنایا جائے۔ ایران کو عراق اور لبنان کی صورت حال پر سخت تشویش ہے۔دونوں ملکوں میں ایران نے اپنی معاشی حالت کی قیمت پر بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور یہ سرمایہ کاری اب غارت ہو رہی ہے۔ لبنان میں نئی حکومت بہرحال ایران نواز نہیں ہو گی اور یہی اندیشہ عراق میں بھی لاحق ہو چلا ہے۔ اگر یہاں حکومت بدلتی ہے اور اس میں آیت اللہ صدر کاغلبہ ہو جاتا ہے تو سعودی عرب کو اس پر بہت اطمینان ہو گا کیونکہ آیت اللہ صدر کے سعودی عرب سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لئے برادران گجرات کو آگے لایا گیا ہے۔ ان سطروں کے چھپنے تک بیل کتنی منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں چڑھتی ہے‘ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے برادران گجرات سے اچھے تعلقات ہیںبلوچستان کے 85سالہ رہنما اکبر بگتی مرحوم کے بھی برادران گجرات سے بہت اچھے تعلقات تھے اور ان پر اعتماد کرتے تھے۔ بزرگ بلوچی رہنما برادران گجرات ہی کو مذاکرات کے لئے روانہ کیا تھا۔ اکبر بگتی مرحوم نے ان پر اعتماد کیاتھا۔ ٭٭٭٭٭ مولانا کے دھرنے سے جو ’’سٹینڈآف‘‘ ہو گیا ہے وہ کس طرح ٹوٹے گا‘ یہ تو پتہ نہیں لیکن ایک دو باتیں ’’ڈیڈ شور‘‘ سمجھ لیجئے ایک تو آئین کی’’دو شقیں‘‘ محفوظ ہو گئی ہیں جو چند ماہ قبل چند ہفتوں کی مہمان سمجھی جانے لگی تھیں۔ دوسری یہ کہ ون پارٹی نظام لانے اور ’’حزب مخالف‘‘ کا رام نام ستیہ کرنے یعنی مصر ماڈل لاگو کرنے کا پراجیکٹ اب مرحوم و مغفور سمجھا جائے۔ بہرحال‘بے وجہ ایک محب وطن میڈیا پرسن کی بات یاد آ گئی جو اب تک خان صاحب کے سخت گیر عاشق گنے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا جونہی خان صاحب ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں‘ لوگ ان کی تعریفوں کے لمبے لمبے پل باندھنے لگتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ دھرنے کے شرکا سردی کی وجہ سے رات ان کنٹینرز میں گزار رہے ہیں جو حکومت نے سرراہ کے طور پر لگائے تھے۔ بلکہ بعض تو انہیں کنٹینروں میں چائے کھانا بھی بنا رہے ہیں۔ آئیڈیا۔ حکومت پچاس لاکھ گھر بنانے سے تو رہی۔ پچاس لاکھ کنٹینر ہی گھروں کے طور پر خاص کر دے۔ ہر شہر کے نواح میں ایک ’’کنٹینر ٹائون‘‘ بنا دے۔