کل علی الصبح مجھے ذریعہ نے اطلاع دی کہ بحر احمر میں ایرانی آئل ٹینکر سبطی پہ میزائل حملہ ہوا ہے۔ مذکورہ آئل ٹینکر اس وقت سعودی عرب کی ساحلی پٹی جدہ پورٹ سے گزررہا تھا۔ میرے ذریعے کا تبصرہ تھا کہ شیطان جنگ کروا کے ہی دم لیں گے۔ شیطا ن اس نے کس کو کہا یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ ایران اور سعودی عرب جنگ کس کے مفاد میں ہے اس کی تفصیل میں نے اس وقت بیان کی تھی جب سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پہ حملہ کے نتیجے میں اسے بھاری نقصان سے دوچار کیا گیا اور امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو اور نائب صدر مائک پینس نے اس کا براہ راست اورفوری الزام ایران پہ عائد کیا۔اس کے بعد سعودی وزارت دفا ع نے اپنی پریس بریفنگ میں بھی اس کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا۔ایرانی آئل ٹینکر سبطی پہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب وزیر اعظم عمران خان ایران اور سعودی عرب ثالثی کے لئے دونوں ممالک کے سربراہان سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعات کا حل چاہتا ہے جو تقریبا ناممکن ہے لیکن کوشش کرنے میں نہ کوئی حرج ہے نہ ہی اسے سراہنے میں کوئی قباحت ہے۔ بات یہ ہے کہ گیم پاکستان کے قد سے بہت بڑی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سعودی آرامکو پہ حملہ ہو یا سعودی دفاعی تنصیبات یا محض اس کے ائیرپورٹ نشانہ بنائے جائیں ،میڈیا پہ مکمل کنٹرول کے باوجود کوئی نہ کوئی خبر باہر نکل ہی آتی ہے جس میں نقصان کا تناسب اچھا خاصا ہوتا ہے۔ایرانی آئل ٹینکروں پہ حملے میں ابھی تک کوئی جانی نقصان ہوا ہے نہ ہی سرکاری ٹی وی کسی خاص نقصان کی تفصیل بتا رہے ہیں ۔واقعات کی تفصیلات میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے۔ ایرانی سرکاری کمپنی نیشنل ایرانین ٹینکرکمپنی یا NITC کے مطابق ایرانی آئل ٹینکر جس کا ابتدائی طور پہ نام نہیں لیا گیابحر احمر میں جدہ سے ساٹھ میل دور یا قریب سے گزر رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے دو دھماکوں کا نشانہ بنا۔ ان میں سے ایک صبح پانچ بجے جبکہ دوسرا نصف گھنٹے بعد ساڑھے پانچ بجے ہوا جسے سرکاری میڈیا میزائل حملے بتا رہا ہے۔ان حملوں میں عملہ مکمل محفوظ رہا جبکہ آئل ٹینکر کو جزوی نقصان پہنچا جس پہ جلد ہی قابو پالیا گیا۔ مذکورہ آئل ٹینکر کے ارباب اختیار بالکل ہی الگ کہانی سنارہے ہیں۔ ان کے مطابق جہاز میں نہ آگ لگی نہ ہی کوئی نقصان پہنچا۔ اب یا تو میزائلوں کا نشانہ چوک گیا یا پھر کسی دلی صدمے کے باعث وہ کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا لیکن اس دہشت گرد حملے میں کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔یہ میزائل حملے کس طرف سے کئے گئے اس پہ راویان یعنی ایران اور سعودی عرب دونوں حیرت انگیز طور پہ خاموش ہیں۔ممکن ہے اگلے روز تک الزام تراشیوں کا کوئی نیا سلسلہ شروع ہوجائے فی الوقت بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب آئل ٹینکر جدہ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ میں بس اتنا اضافہ کرنے کو تیار ہوں کہ یمن بھی ادھر ہی ہے۔ دراصل بحر احمر کے سرحدی ممالک میںمشرقی ساحل پہ یمن اور سعودی عرب ہی ہیںجس میں یمن نیچے کی طرف جنوب میں ہے۔ یمن سے جد ہ اور طائف کی طرف ڈرون اورمیزائل حملوں کی ٹائم لائن دیکھیں تو گزشتہ ایک سال میں یہ کئی درجن تک پہنچ جاتی ہے جن میں بحر احمر میں ہی سعودی آئل ٹینکر بھی نشانہ بنے ہیں۔جہاں تک ایرانی آئل ٹینکر کا تعلق ہے تو اس کا نام سبطی ہی بتایا جارہا ہے جو تقریبا محفوظ ہے اور میرے ذریعہ کے مطابق وہی اس وقت جدہ پورٹ کے قریب سے گزر رہا تھا۔ نیشنل ایرانی آئل ٹینکر کمپنی کے تیل برادر جہاز بحر احمر کے اسی روٹ سے ہو کر گزرتے ہیں ۔ یہ جہاز مصر میں نہر سوئز کی بحر احمر والی سمت واقع پورٹ سعید کو تیل کی ترسیل کرکے واپس اسی راستے سے خلیج فارس آتے ہیں اور سبطی ہی وہ جہاز تھا جو اس وقت یہاں سے گزررہا تھا۔ یہ جہاز راستے میں باب المندب سے بھی گزرتے ہیں جو جہازوں کی ایک حساس راہداری ہے اور یمنی حوثیوں اور سعودی عرب کے درمیان اپنی تزویراتی اہمیت کے باعث عسکری کشاکش کا مرکز بھی ہے۔ دوسری طرف آبنائے ہرمز مکمل طور پہ ایران کے کنٹرول میں ہے اور ایران اسے دنیا بھر کے مال بردار اور تیل بردار جہازوں کی آمدو رفت کو کسی بھی وقت نہ صرف بند کرسکتا ہے بلکہ ماضی میں ایسا کرتا بھی رہا ہے۔اس تناظر میں ایران کی بحر احمر پہ اجارہ داری نے تیل کی پیداوار والے ممالک کو پریشان کر رکھا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہوگیا ہے۔اگر اس جہاز کو سبطی ہی مان لیا جائے جو کہ مجھے بھی یہی معلوم ہوا ہے تو ایرانی سرکار نے جاری شدہ تصاویر میں اسے مکمل محفوظ دکھایا ہے۔ان تصاویر کو ٹویٹر پہ شئیر کرنیوالے ایرانی صحافیو ں نے بھی اس پہ حیرت کا اظہار کیا ہے کہ دو میزائل حملے بھی اس جہاز کا بال بھی بیکا کیوں نہ کرسکے۔اسکے علاوہ جب سے ایران حالیہ امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، ایرانی تیل بردار جہاز اپنی ترسیل اور فروخت کو امریکہ سے مخفی رکھنے کیلئے اس حساس روٹ سے گزرتے ہوئے اپنے ٹریکر بند کردیتے ہیں لیکن اس آئل ٹینکر نے اسے خلاف شان سمجھا اور جاتے ہوئے نہیں بلکہ واپس آتے ہوئے اپنے ٹریکر آن کردیئے جو آخری بار بندر عباس پہ لنگر انداز ہوتے ہوئے اگست کے مہینے میں آن کئے گئے تھے۔بحر احمر میں تعینات امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے ترجمان اس وقوعہ پہ بالکل خاموش ہیں اور کسی بھی قسم کے تبصرے سے انکاری ہیں۔ادھر سبطی کے ارباب اختیار نے بھی ٹینکر کا روٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔دوسری اطلاعات کے مطابق یہ جہاز سبطی نہیں بلکہ نیشنل ایرانی آئل کمپنی کا ہی آئل ٹینکر سائنوپا تھا جو اسی روٹ پہ یعنی جدہ سے ساٹھ میل کے فاصلے پہ میزائل حملوں کا نشانہ بنا اور اسے بری طرح نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں ٹینکر سے تیل بہنا شروع ہوگیا ۔ بہہ جانیوالے تیل کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ عالمی منڈی میں برینٹ کی قیمت میں دو اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوگیا۔یعنی 60.13ڈالر فی بیرل سے 60.46 ڈالر فی بیرل۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی ٹیکساس تیل یعنی یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹجو اب عالمی تیل کی اسٹاک میں ایک بینچ مارک بن گیا ہے کی قیمت میں بھی دو فیصد سے زائد اضافہ ہوگیا ہے۔جو 54.47ڈالر فی بیرل سے 54.6 ڈالر فی بیرل ہوگیا ہے۔اس واقعہ کے بعد خطے میں تیل کی ترسیل اسی طرح خطرے میں سمجھی جارہی ہے جس طرح سعودی آرامکو حملے کے بعد سمجھی جارہی تھی اور وہ خطرے میں پڑ بھی گئی ہے۔یہ حملے یوں ہی ہوتے رہے تو دنیا بھر میں تیل کی ترسیل کا بوجھ بھی امریکہ کے نازک کاندھوں پہ آجائیگا۔