آجکل کسی معقول اے سی مکینک سے کامیاب رابطہ کرنا گویا کسی بہت بڑے سرکاری افسر سے رابطے کے مترادف ہے ۔ بلکہ اس سے بھی کہیں مشکل اور گھمبیرتر ۔۔ہو سکتا ہے وہ سرکاری افسر خود بھی کسی ایسے مکینک کی تلاش میں ہو ۔کسی زمانے میںیار لوگ اربابِ اختیار سے رہ و رسم بڑھانے کو مفید اور بہتر سمجھتے تھے لیکن اب کسی کارپینٹر ، الیکٹریشن ، پلمبر ، درزی اور اے سی مکینک وغیرہ سے ذاتی تعلق رکھنا نسبتاً زیادہ ضروری ہے ۔ میرے خیال میں ان احباب سے تعلق ہونے سے زندگی میں احساسِ تحفظ بڑھ جاتا ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اربابِ اختیار سے صاحب سلامت عملی لحاظ سے شاید اس قدر مفید نہیں ہوتی ۔ آجکل گرمی جس طرح پڑ رہی ہے لگتا ہے کہ سورج اگر سو ا نیزے پر نہیں ہے تو شاید کچھ زیادہ دور بھی نہیں ۔ایسے میں گھر کا ائیر کنڈیشنر خراب ہو جاناکس قدر اذیت ناک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ یار لوگوں کو ہوگا۔ بس یوں سمجھیے کہ سورج نا صرف ’’ شام کے بعد ‘‘ گھر میں اترتا ہے بلکہ چوبیس گھنٹے ادھر ہی رہتا ہے ۔ ایسے میں بالائے ستم یہ تھا کہ گھر کااے سی جواب دے گیا۔ فوری طور پر اس کام کو جاننے والے ایک مقامی بندے سے رابطہ کیا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا یہ صاحب ایک ’’عطائی ‘‘ مکینک تھے۔ یہ شام کو تشریف لائے ۔ اے سی بڑے دھڑلّے سے ٹھوک بجا کے چیک کیا اور بعد میں پوچھنے لگے’’ یہ اے سی فرسٹ کلاس اور بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ چلتا کیوں نہیں ؟‘‘ اس ملین ڈالر سوال کا میں کیا جواب دیتا ۔۔گویا ، ’’ پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے ، ‘‘ ۔ میں نے عرض کیا کہ یہ جاننے کے لیے ہی تو جناب کو زحمت دی ہے ۔ پتہ یہ چلا کہ اے سی کے بارے میں موصوف کا علم اتنا ہی تھا جتنا کہ ہمارا تھا۔ وہ صاحب وہاں بیٹھے تھوڑی دیر اور سوچا کئے اور پھر خاموشی سے روانہ ہو گئے ۔ اس حوالے سے مذید خواری سے بچنے کے لیے میں نے شہر کے دو تین صاحبِ حیثیت احباب کی بھرپور سفارش کے بعد ایک اے سی مکینک سے باقاعدہ APPOINTMENT لی۔ اتنی تگڑی سفارش کے باوجود مکینک موصوف نے دو تین دن بعد تشریف لانے کا وعدہ کیا ۔ وعدے والی شام مکینک صاحب کے ’’ پرسنل اسسٹنٹ ‘‘ کا فون آیا ۔ بتا رہے تھے صاحب کسی ایمرجنسی کی وجہ سے آج نہیںآ سکے ۔ اب کل یا پرسوں آئیں گے ۔ میں اُس ’’ ایمرجنسی‘‘ کا مطلب فوراً سمجھ گیا ۔ یقیناًً کوئی نسبتاً بڑی سفارش آگئی ہو گی ۔ شدید گرمی میں ایک دو دن مزید انتظار کسی عذاب سے کم نہیں تھا ۔ لیکن احباب سے ا س مکینک کی تعریف ہی ہم نے ایسی سُنی تھی کہ انتظار کے بغیر چارہ نہیں تھا ۔سبھی دوست اس مکینک کے بارے کہہ رہے تھے کہ مکینک بہت اعلیٰ ہے بس ذرا سا سر پھرا ہے ۔ ایسا نہیں تھا کہ اے سی بالکل ہی خراب اور ناکارہ تھا ۔ یہ اے سی کام تو کر رہا تھا لیکن ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں بعض ادوار میں جمہوریت کا م کرتی رہی ہے ۔ یعنی ’’ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘ ۔اے سی سٹارٹ ٹھیک ٹھاک ہوتاتھا ۔ موسم اچھا ہوتا تو ٹھنڈک بھی کرتا تھا ۔ لیکن جیسے ہی گرمی بڑھتی روم ٹمپریچر دکھانے والی گیج پر درجہ حرارت بھی بڑھنا شروع ہوجاتا۔ سکرین پر بڑھتے ٹمپریچر کو دیکھ کر ہم اے سی بند کر دیتے ۔ اگلے دن مذکورہ مکینک تشریف لائے۔ان کے اسسٹنٹ انہیں ’ ایسکارٹ ‘ کرتے ہوئے متذکرہ ائیر کنڈیشنر کے پاس لے گئے ۔ انہوں نے فوری طور اے سی اتارنے کا عندیہ دیا۔ اے سی اتار کر گیراج میں رکھا گیا ۔ اب اُن کے ماتحت نے اے سی کو واش کرنا شروع کیا ۔اس دوران مکینک کا فون مسلسل کان کے ساتھ لگا رہا ۔ وہ کئی اور لوگوں کو آئیندہ وزٹ کے لیے ٹائم دے رہے تھے ۔ اپائنٹمنٹ دیتے ہوئے ان کا انداز کسی پروفیسر ڈاکٹر سے کم نہیں تھا۔ ائیر کنڈیشنر کو واش کرنے کے دوران مٹی نیچے گر رہی تھی اور مکینک صاحب مسلسل سر ہلا رہے تھے ۔ جیسے باور کروانا چاہ رہے ہوں کہ اس اے سی کے ساتھ ہم نے بڑی زیادتی کی ہے۔ان کے انداز اور آواز سے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ اے سی انہوں نے مجھے مستعار دیا ہو اور میں نے اسے مکمل تباہ کرکے واپس کر دیا ہو ۔ان کی باڈی لینگوئج اور نفی میں مسلسل سر ہلانا بتا رہا تھا کہ اُن کے خیال میں یہ اے سی اپنے دن پورے کر چکا ہے ۔ سروس اور دھلائی کے بعد انہوں نے باقاعدہ تشخیصی معائنہ کیا ۔ اب مکینک صاحب نے اپنے اسسٹنٹ کو وہ چیزیںنوٹ کروانی شروع کیں جو ان کے مطابق تبدیل کرنی مقصود تھیں ۔فہرست طویل ہوتی گئی ۔ اے سی کی شاید ہی کوئی چیز ہو جو ان کے مطابق درست کام کر رہی تھی ۔ رننگ کیپیسٹر، پائپ، کٹ ، لاک ، فین کیپسٹر وغیرہ وغیرہ سب ردّی ہو گئے تھے۔ ہر چھوٹی بڑی چیز نئی ڈلوانی ضروری تھی ۔ یہاں مجھے وہ مکینک ایک ایسے سرجن ڈاکٹر کی طرح لگ رہا تھا جس کے پاس کوئی مریض اپنڈکس کے آپریشن کے لیے جائے اور وہ تجویز کرے کہ آپ ہسپتال آ گئے ہیں احتیاطاً ہارٹ کی بائی پاس سرجری بھی کرواتے جائیں ۔ امریکی گیس سمیت کوئی آٹھ دس چیزیں نئی ڈلوانی ضروری تھیں ۔ مکینک نے ان تبدیل ہونے والی اشیاء کی فہرست مجھے تھمائی تو میں نے عرض کیا ، ’’ اتنا کچھ تبدیل کرنے کی بجائے ہم اے سی ہی تبدیل نہ کر لیں ۔ ‘‘ میری اس بات پر مکینک صاحب کے غصیلے چہرے پر مزید خفگی کے آثار آئے اور وہ بولے، ’’ مرضی ہے آپ کی ۔۔ لیکن آپ یہ ’’ اچھا بھلا ‘‘ اے سی ضائع کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟ ‘‘ ۔ یہ سُن کر مجھے اس مکینک کے بارے میں احباب کی رائے کا دوسرا حصہ درست معلوم ہوا ۔