سرینگر (نیٹ نیوز) کشمیری طلباوطالبات حصولِ تعلیم کے لیے جن ممالک کارخ کرتے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے ، ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی دو سو کے قریب ایسے طلبا و طالبات پاکستان میں زیرِ تعلیم ہیں۔ وادی میں سکیورٹی لاک ڈاؤن اور مواصلاتی رابطوں کی بندش کے بعد سے پاکستان ،انڈیا اور دیگر ممالک میں مقیم طلبہ بھی اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرنے سے محروم رہے ۔ایسی ہی ایک طالبہ نسیمہ بٹ (فرضی نام) نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'میں سرینگر کے علاقے صورہ سے تعلق رکھتی ہوں،ہمارے پاس کوئی ایسا شخص نہیں کہ لینڈ لائن نمبر پر بات کرکے میں ا پنے اہل خانہ کی خیر خیریت حاصل کر سکوں۔پندرہ دن ہوچکے ہیں اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ میری ذیابیطس کی مریضہ ماں جو انسولین استعمال کرتی ہیں کس حال میں ہیں اور انہیں انسولین ملی کہ نہیں۔ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے صبور (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ لینڈ لائنز بھی ہر جگہ بحال نہیں ہوئی ہیں اور ان پر کال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔انڈیا کے کچھ شہروں میں موجود کچھ کشمیری صحافیوں سے میری بات ہوئی جنھوں نے بتایا ہے کہ ویسے بھی لینڈ لائن پر یہاں سے وہاں کال کی جائے تو گھر والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا جاتا ہے ۔نسیمہ بٹ کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ گروپس پر اتنی زیادہ خوفناک خبریں ملتی ہیں جنھیں پڑھ کر ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔صبور کا کہنا ہے کہ 'میری کئی کشمیری طلبہ سے بات ہوئی، سب کہتے ہیں کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے ، اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے ۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کیا کر رہا ہے ، پاکستان کیا سوچ رہا ہے ؟ میرے پاس ان سوالات کا کوئی بھی جواب نہیں۔پاکستان میں موجود کشمیری طلبا کے علاوہ بی بی سی نے جموں میں موجود ایک طالبعلم سے بھی بات کی ۔ایک اور طالبعلم نے بتایا کی یہاں ایک ایک گھر کے باہر دس دس فوجی کھڑے ہیں،پچھلے پندرہ دن میں مجھے 60 سے زیادہ چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔ میں نے اتنی بدترین صورتحال کبھی نہیں دیکھی ،کشمیر میں ایسا لگ رہا تھا میں کسی جیل خانے سے گزر رہا ہوں۔'چھوٹے بڑے سبھی غصے کی کیفیت میں ہیں۔ ہم میں جو پہلے سیاست کے ہمنوا تھے ان کی اکثریت بھی اب شاید مجاہدہدین کے کیمپ میں ہو گی۔