جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے جلوۂ جمال نے راکھ کردیا ہیں کیا سوال سوچتے کیا جواب دیکھتے گویا وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ‘ یہی تو کمال ہوتا ہے لیڈرکا کہ آس ٹوٹنے نہ دے‘ امید دلائے رکھے اور قافلے کو لے کر چلتا رہے مگر تابہ کے! کوئی تو حد ہوتی ہے جہاں آ کر کوئی پکار اٹھتا ہے۔ کوئی ایسا کر بہانہ میری آس ٹوٹ جائے۔ کہ اب تک تو بے چارے یہی سنتے رہے کہ جسے دیکھنی ہو جنت میرے ساتھ آئے۔ اب تو سپنے دیکھ دیکھ کر آنکھیں تھک چکی ہیں۔ طبیعت پر گرانی ہے اور لگتا ہے رائیگانی ہی رائیگانی ہے۔ اب لوگ کہیں اور آواز دینے والے ہیں۔ منیر نیازی یاد آ گئے کہ وہ بھی ایک اور کوشش کرنا چاہتے تھے: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے لوگ آخر کیوں نہ سوچیں کیونکر آواز بلند نہ کریں اور کیوں نہ ہاتھ پائوں ماریں۔ پھر میرے ہاتھ پائوں چلنے لگے۔ جب میرے ہاتھ سے کنارہ گیا۔ جینے کے جتن تو ہر کوئی کرتا ہے۔ خان صاحب کے دلاسوں پر رہے سمجھو مارے گئے۔ جناب کا کوئی قدم سیدھا نہیں۔ فرماتے ہیں آئی جی سندھ کا سوچتا ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ یقینا آنی بھی چاہیے کہ لوگوں کو اس پر رونا آتا ہے کہ یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ایک ایشو ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ جسٹس فائز ریفرنس میں صدر آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔ محض سنی سنائی باتوں پر ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا۔ منی لانڈرنگ کے کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے۔ اصلی ایشو کی طرف کوئی آنا ہی نہیں چاہتا۔ حکومت اور اپوزیشن دو ایسے نکات پر لڑ رہی ہیں جو بے نتیجہ ہیں رہیں گے اور یہ بات دونوں اچھی طرح جانتے بھی ہیں پھر بھی قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو جنوری میں رخصت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور حکومت نواز شریف کو 15 جنوری تک واپس لانے کا اعلان کر رہی ہے۔ مجھے تو یہ صفدر حسین جعفری کے شعر جیسی صورت حال لگتی: اس نے کہا شمال کی جانب نہ جائیو میں نے کہا شمال کو جانا ضرور ہے سویل میڈیا پر دلچسپ تبصرے لگ رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو سچ بولنے سے نہیں روک سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ نوازشریف کو واپس لائیں تو سردست جہانگیر ترین کو بھی لیتے آئیے گا۔ یہ کمیٹیاں یہ کمیشن اور یہ انکوائریاں سب مذاق ہیں۔ ایک نے تو مزیدار بات لکھی کہ خان صاحب پوری کابینہ کو ساتھ لے کر نوازشریف کو لینے جائیں گے۔ خط وط تو پہلے لکھے جا چکے۔ مجھے اس سے ایک کلاسیکل شعر یاد آ گیا: میں نے خط لکھ کے انکو بلایا آ کے قاصد نے دکھڑا سنایا انکے پائوں پہ مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہیں آپ مسابقتی کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر خوش ہو جائیں گے کہ حکومتی پالیسیوں سے چینی کی قیمتیں بڑھیں۔ حکومتی سبسڈی سے 70 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ چینی کی برآمدکی اجازت سے چینی کی قیمت بڑھی۔ شوگر مافیا نے 40 ارب روپے ناجائز منافع کمایا۔ جی یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ اس سے آگے کیا۔ آگے کیا! بس ٹھیک ہے۔ بس ٹھیک ہے کہ کیا معنی! وہی کہ بس ٹھیک ہے نتیجہ کیا نکلا‘ کچھ بھی نہیں: سب لوگ مطمئن ہیں فقط اتنی بات پر مجرم یہ مانتا ہے وہ حق پر نہیں رہا میں کل ندیم افضل چن کی گفتگو سن رہا تھا کہ موجودہ حالات کے حوالے سے وہ فرما رہے تھے کہ ہم کمزور ہیں۔ وہ اشرافیہ کی باتیں کر رہے تھے کہ اس میں مافیاز ہیں جو چلنے نہیں دیتے۔ وہ صرف ادھر ہی کمزور نہیں۔ وہ ہر طرف سے کمزور ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ان کی فٹیگیں بھی ہیں کہ اگر وہ فٹیگ نہ بھریں تو وہ حکومت کو چلا ہی نہیں سکتے بلکہ قائم نہیں رہ سکتے۔ ویسے یہ کمزوری کم بزدلی زیادہ ہے۔ اگر اتنا حوصلہ ہے اگر آپ سچ مچ مخلص ہیں اور قوم کا درد رکھتے ہیں تو پھر ٹھیک صورت حال سامنے لائیں۔ اگر حالات سنبھالنے کی ہمت نہیں تو کیوں کرسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ سب بیساکھیاں استعمال کرتے ہیں۔ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے اعتماد اور طاقت چاہیے۔ جب مشکل پڑتی ہے تو عوام عوام کرنے لگتے ہیں اور جب اقتدار ملتا ہے تو وہ عام سے خاص ہو جاتے ہیں یعنی‘ کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے۔ وہ جا رہے ہیں جیسے ہمیں جانتے نہیں مطلب نکل گیا تو پہچانتے نہیں ویسے کمال کی بات ہے کہ سیاستدان جب بس نہیں چلتا تو کہتے ہیں ہم کمزور ہیں اور جب اختیار ملتا ہے تو کمزوروں کی ایسی تیسی کردیتے ہیں۔ چلیے ایک شعر ڈاکٹر کاشف رفیق کا بھی پڑھ لیں: مصنوعی روشنی سے سبھی کھا گئے فریب سمجھے تھے لوگ جس کو سحر وہ سحر نہ تھی میرا خیال ہے کہ اس میں حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے اگر ٹائیگرز ہی اس کام پر لگا دیئے جائیں تو اچھا ہوگا۔ بہرحال حکومت سب سے کھایا پیا نکلوا کے رہے گی یعنی وہ تحریک رکے گی نہیں۔ وہی غالب یاد آئے کہ ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے۔ وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔ کچھ بھی نہ ہوتا یہی کچھ ہوتا جوہورہا ہے۔ کچھ بدلنے کے ہمارے طور طریقے ہی نہیں۔ بدل بدل کے تو دیکھنے والے ہی دیکھتے ہیں ۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: خوش خیالی کی یہ تجسیم ہے ساری ورنہ جسے دیکھا ہی نہیں اس سے محبت کیسی