معزز قارئین!آج میں بہت رنجیدہ اور آبدیدہ ہوں سوشل میڈیا پر لوگوں کی اس ستم رسیدہ ماں کے حوالے آرا سن رہا ہوں جسے درندوں نے موٹر وے پر اس کے بچوں کے سامنے پامال کر دیا۔ رہ رہ کر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے سزا کے طور پر یہاں سے انسانیت اٹھا لی گئی ہے۔ابھی تو ساہیوال کے سانحہ کا لہو سوکھا نہیں ۔ہائے ہائے ہر حساس آدمی ایک دوسرے سے منہ چھپا رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر آن پہنچا ہے۔ وہ خاتون پولیس والوں کو ٹھیک کہہ رہی تھی کہ خدا کے لئے اسے گولی مار دو کہ ایسے سانحہ کے بعد اپنے بچوں کے سامنے جینا اور اس معاشرے میں رہنا ہر روز مرنے کے مترادف ہو گا: کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر ہائے یہ سانحات اور ذمہ داروں کے رویے اس سے کہیں زیادہ بھیانک۔ سی سی پی او عمر شیخ کا بیان تھا ۔انہوں نے شاید اپنی طرف سے ٹھیک ہی کہا ہے کہ رات کے ڈیڑھ بجے ایک عورت کواپنے بچوں کو لے کر ڈیفنس کے فیز 6سے نکل کر گوجرانوالہ جانے کی کیا ضرور ت تھی پھر اس نے پٹرول بھی چیک نہیں کیا پھر وہ جی ٹی روڈ سے چلی جاتی یہ بھی کہا کہ عورت کے ذہن میں فرانس کا سیٹ اپ تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس پر سوشل میڈیا چیخ پڑا سی سی پی او کی شامت آ گئی لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ عمر شیخ کا ایک اعترافی بیان تھا کہ ہماری پولیس فرانس کی پولیس نہیں اور نہ ہی یہاں ان جیسی رٹ ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ اقبالی بیان ہے کہ پولیس ایسے حالات میں کچھ نہیں کر سکتی۔ جس عورت کو رات گئے ایسے نکلنا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر نکلے۔ یہ معاملہ تو بہت ہی حساس ہے اس بے چاری ستم رسیدہ خاتون پر تنقید جو کہ تسلی کے بول بھی برداشت نہ کر سکے: مجھ سے جھیلا نہ گیا حرف تسلی اس کا کاش وہ گھائو لگاتا مجھے تلوار کے ساتھ ویسے یہ بات بھی خوب ہے کہ خاتون رات گئے بچوں کو لے کر سڑک پر کیوں نکلی۔آپ اس کا باقاعدہ اعلان کریں اور وارننگ جاری کریں کہ کوئی عورت یوں نہ نکلے۔ مگر وزیر اعلیٰ کے شہر تونسہ شریف میں بھی ایک خاتون کی عزت کو اس کے بچوں کے سامنے روند ڈالا۔ یہ خاتون تو اپنے گھر میں بیٹھی تھی۔ بات سڑک پر آنے کی نہیں ہے۔ کوئی اپنے گھر پر بھی محفوظ نہیں ہے۔ سچ کہا ہے لوگوں نے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ کراچی میں پانچ سال کی معصوم پری کو درندگی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ وہ بے چاری تو ویسے ہی توتلا بولتی ہو گی ہائے ہائے روئوں میں اپنے دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں۔ اک کرب ہے آنکھوں میں اک درد ہے سینے میں کیا راز ہے مرنے میں کیا رمز ہے جینے میں یقین مانیے سب کچھ عجیب لگتا ہے نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے۔ ہائے ہائے اے کاش زینب کے قاتل کو کسی چوراہے میں لٹکایا ہوتا ایسے ہی جیسے ضیاء الحق نے پپو کے قاتل کو شادمان میں کھلے عام پھانسی دی تھی ہزاروں لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا اور کئی برس سکون سے گزر گئے اب لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ صرف اسلام ہی زندگی کو تحفظ دیتاہے وہ بے حیا اور بے حمیت لوگ جنہیں اسلامی سزائیں درندگی اور غیر فطری عمل لگتا ہے اب کیوں نہیں بولتے۔ اب وہ لوگوں کے غصے اور عتاب کے ڈر سے خاموش ہیں۔ میں کئی لبرل خواتین کی پوسٹیں پڑھ کر حیران رہ گیا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ موٹر وے پر عورت کی بے حرمتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دو اور جو اس عمل کی مخالفت کرے اسے بھی ساتھ ہی پھانسی دو۔ فواد چودھری اور شیریں مزاری اب کیا کہیں گے۔ فواد چودھری نے تو زچ ہو کر کہا کہ اب پھانسی دے کر بھی دیکھ لیں۔ جناب اس کا حل ہی یہ ہے۔ یہاں آوے کا آواز ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہر آنے والا نمک کی کان میں نمک ہو جاتا ہے اور وہ اسی بدبو اور گندگی کا عادی ہو جاتا ہے۔ جو موجودہ سیٹ اپ کا حصہ ہے۔ آپ ذرا اس بیان پر دھیان دیجیے کہ جو موجودہ سیٹ اپ کا حصہ ہے یہاں تک کہ عدالت نے بھی کہا کہ سی سی پی او کو کیوں کہنا ہے کہ وہ تو آئی جی کی بھی نہیں سنتے۔ کبھی وہ کسی کو ہیرو قرار دیتے ہیں اور چند ماہ کے بعد وہ زیرو کر کے الگ کر دیا جاتا ہے اور اب وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پچھلے دور میں ہوتا آیا ہے۔قاعدے قانون کی ایسی کی تیسی: دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر ترا وقت سفر یاد آیا چیف جسٹس کا برملا یہ کہنا کہ حکومت جاگے۔معمولی بات نہیں کہ ان کا الزام غلط نہیں کہ پولیس میں سیاسی مداخلت حد سے زیادہ بڑھ رہی ہے۔ بیورو کریسی کو بھی ٹک کر کام کرنے نہیں دیا جا رہا آپ عوام یعنی خلقت کی زبان سننا چاہیں تو حاضر ہے۔ عوام اپنی حفاظت خود کریں ہم اپنے آقائوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ وزیر اعظم تسبیح پر آیت الکرسی پڑھیں اور عوام استغفار کا ورد۔پولیس تو نو آبادیاتی دور کے انداز پر چل رہی ہے کہ عوام کو ذلیل کر کے کیسے رکھنا ہے۔۔ جنگل والے بھی شرمسار ہونگے۔ایسی بے شمار پوسٹیں ہیں جو زبان خلق کا پتہ دیتی ہیں۔ اس معاملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ اس سے پہلے ایسے ڈکیتی کے واقعات ہو چکے ہیں پھر یہاں کوئی بندوبست نہ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ آرڈر ہو چکے تھے ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ موٹر وے پولیس کی نیک نامی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ خاتون کے مطابق کہ اس نے جب پولیس کو اطلاع دی تو پینتالیس منٹ بعد پولیس پہنچی اور یہ ایک معمہ ہے کہ ان ڈاکوئوں کو فوراً کیسے پتہ چلا کہ ایک عورت بچوں کے ساتھ گاڑی میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں پورے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ ویسے تو پہلے بھی کوئی اچھی ساکھ نہیں۔ اب سب دورے کر رہے ہیں مگر سب سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹ رہے ہیں وہی منیر نیازی’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔