سماج میں صرف پیسہ ہی پردھان بن کر بولے تو پھر یہی ہوتا ہے۔ پیسہ لگائو اور ہر قسم کی ڈگری سے لے کر حکومتیں تک اپنی جیب میں ڈالو۔ حیرت، قانون، اصول، قاعدے، ضابطے سب ایسے سماج میں ٹکا ٹوکری ہو جاتے ہیں۔ پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ والی بات ہے اور سیاسی رہنمائوں کے نام پر لٹیرے اس قوم کا مقدر ہیں۔ حالات کو بہتر بنانے کے دعوے، امیدیں اور کوششیں سب اپنی جگہ لیکن صورت حال اب ایسی ہے کہ لوگ بیماری میں اسپتال جاتے ہوئے گھبرائیں گے کہ کہیں غلط دوا، غلط انجکشن کی وجہ سے مسیحائوں کے ہاتھوں بے موت نہ مارے جائیں! ایسا لگتا ہے جیسے قصابوں نے سفید کوٹ پہن لیے ہیں۔ گلے میں سٹتھوسکوپ ڈالے، ہاتھ میں نشتر پکڑے مریضوں کا علاج کرنے کے بہانے انہیں موت یا پھر موت سے بدتر زندگی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ کبھی ان نام نہاد مسیحائوں کی ذرا سی غلطی کسی کے لیے موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔ صرف ایک دو دن کے اندر ہی ایسی کتنی خبریں سامنے آئیں ہیں کہ غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض بے موت مارے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے 14اپریل کو کراچی سے 9ماہ کی نشوا کی خبر آئی جسے کراچی کے دارالصحت اسپتال میں غلط انجکشن لگا کر مفلوج کر دیا گیا۔ پھر اس ننھی جان کو لیاقت نیشنل اسپتال منتقل کیا گیا۔ وینٹی لیٹر پر نشوا نے دو ہفتے گزارے اور اس سفاک معاشرے سے اس کی جان چھوٹ گئی۔ وہ ننھی سی پری موت کا ہاتھ تھام کر عدم کی راہوں پر چلی گئی۔ مگر کتنے سلگتے سوال اس سماج کے سامنے چھوڑ گئی۔ نشوا اپنے پاپا ماما کی جان تھی۔ جس بے دردی سے اس کی قیمتی جان کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، وہ اتنہائی افسوسناک ہے۔ اس کا باپ دنیا بھر کے سامنے روتا اور بلکتا سوال کرتا ہے کہ اس کی بیٹی ظالموں نے مار دی۔ یہاں ڈاکٹروں کے روپ میں قاتل بھی اسپتال کی راہداریوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ صورت حال معاشرے کے ہر شخص کو عدم تحفظ سے دوچار کرتی ہے۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ ڈاکٹروں کے ہاتھ مریضوں کی قیمتی جانوں سے کھلواڑ کی زیادہ خبریں کراچی سے آئی ہیں۔ جہاں ایک 22سال کی لڑکی عصمت بھی قتل اور زیادتی کے لرزہ خیز جرم کا شکار ہوئی۔ خبر کے مطابق کراچی کے لوئر مڈل کلاس علاقے ابراہیم حیدری سے تعلق رکھنے والی عصمت نے سات ماہ قبل اسی اسپتال میں ملازمت شروع کی تھی۔ گویا اس کے ساتھ ہونے والا ظلم اس کی ورک پلیس پر ہوا۔ جہاں دانت درد کا غلط انجکشن پہلے اس کو لگایا گیا۔ اس کے بعد اس سے زیادتی ہوئی۔ وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔ ابھی لوگ اس خبر کو سن کر توبہ توبہ کر ہی رہے تھے کہ کراچی سے ایک اور 4سالہ بچی کی خبر آئی جیسے قاتل ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگا کر مار دیا۔ بچی کا غریب باپ میڈیا کے سامنے دہائی دے رہا تھا کہ ہماری بچی کو صرف بخار ہی تھا ہم نے ڈاکٹر سے بہت کہا کہ بچی کو ٹیکہ نہ لگائو لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ ٹیکہ لگنا تھا کہ 4سالہ بچی کی حالت بگڑ گئی۔ یوں باپ کے ہاتھوں میں بچی جان سے چلی گئی۔ ایسی ہی ایک افسوسناک، خبر وہاڑی سے بھی آئی ہے۔ غالباً 2اپریل کو اخبار میں یہ خبر چھپی کہ ڈسٹرکٹ اسپتال وہاڑی میں 17سال کی ساجدہ بی بی کو شدید بخار کی حالت میں ایمرجنسی لایا گیا جہاں ڈاکٹر اور سٹاف نے چیک اپ کے بعد اسے انجکشن لگایا اور انجکشن کے لگتے ہی لڑکی کومہ میں چلی گئی۔ وہاڑی میں ہونے والے اس ظلم کا چرچا اگرچہ میڈیا پر نہیں ہوا۔ لیکن کسی بھی طور یہ کہیں نشوا اور عصمت کیسز سے کم سنگین نہیں ہے۔ مریضہ کی حالت خراب ہونے پر جب اس کے وارثوں نے احتجاج کیا تو ڈسٹرکٹ اسپتال وہاڑی کے ڈاکٹروں اور سٹاف نے ان سے بدتمیزی اور ان کو خاموش رہنے کی دھمکیاں دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آئے روز اب ایسے واقعات اسپتالوں میں ہوتے رہتے ہیں کچھ خبروں میں آئے اور کچھ نہیں۔ لوگ مقدر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اب جو واقعہ میں شیئر کرنے لگی ہوں یہ ہمارے عزیزوں کے پیش آیا۔ یہ فیملی کوئٹہ میں مقیم ہے۔ ان کے سترہ سالہ بیٹے کو مارچ 2019ء میں معدے کی خرابی اور اُلٹی کی شکایت ہوئی وہ اسے شہر کے بہترین اسپتال میڈیکل کمپلیکس میں لے کر گئے۔ جہاں غالباً ڈاکٹروں کے روپ میں عطائی موجود تھے۔ لڑکے کو غلط ٹریٹمنٹ دی گئی۔ غلط انجکشن لگائے اور وہ دوبارہ بیڈ سے اٹھ نہیں سکا۔ دو ہفتے سی ایم ایچ کوئٹہ میں وینٹی لیٹر پر رہا۔ ماں باپ ایک اذیت کی سولی پر لٹکے رہے۔ دو ہفتے کے بعد ان کا جوان جہان بیٹا زندگی کی بازی ہار گیا۔ موت کی وجہ آج بھی معلوم نہیں ہو سکی۔ معروف شاعرہ ڈاکٹر خالدہ انور میری بہت اچھی دوست ہیں کچھ ہفتے پہلے ان کا فون آیا اور افسردہ لہجے میں کہنے لگیں کہ اس پر بھی کوئی کالم لکھو یہ جو ڈاکٹر مریضوں کو مار دیتے ہیں۔ پھر بتانے لگیں کہ میری خالہ زاد ہیں۔ گنگارام اسپتال کی ایمرجنسی میں تیز بخار کی دوا لینے گئی۔ جہاں سفید کوٹ والے عطائیوں نے ڈرپ لگا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے 24،25 سالہ لڑکی موت کے منہ میں چلی گئی۔ اسے مارنے والے آج بھی مریضوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ یہ جو پیسے کے بل بوتے پر پاکستانی خبطی والدین نے اپنے نالائق بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ یہ جو میڈیکل کی ڈگریوں کے نام پر گھناؤنا کاروبار ہو رہا ہے۔ اس کے نتائج یہی نکلنا تھے۔ اب اسپتالوں میں سفید کوٹ والے ڈاکٹر نہیں ڈریکولا ہیں جوڈاکٹر کے روپ میں مریضوں کو دھڑا دھڑ موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ لیکن اس کاروبار میں یقینی موت سے پہلے وینٹی لیٹر کا مرحلہ ضرور آتا ہے۔ آخر پیسے کمانے کا حق تو سب کو ہے نا۔ کیونکہ اس سماج میں پیسہ ہی پردھان ہے!