ایک بار پھر کسی ڈیل یا این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ حکومت یہ فیصلہ کرے اور یہ ڈیل سرے چڑھ جائے۔ ہمارے ہاں کیونکہ ڈیل اور ڈھیل جیسے معاملات ماضی میں سیاسی سطح پر ہوچکے ہیں اس لئے ایسی کسی بھی بات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے بھلے یہ افواہ ہی ہو۔ بنیادی طور پر تین ماڈل ہمارے ہاں رائج رہے ہیں۔ پہلا ماڈل تو ضیاء الحق والا ہے جس میں سیاسی مخالفین کو ہانکا کر کے ملک بدر کر دیا جائے جیسا کے انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو جلا وطنی پر مجبور کر کے کیا اور پھر خوب کھل کھیلے۔ یہی ماڈل میاں نواز شریف نے 1998 میں استعمال کیا۔ آصف زرداری کو جیل میں ڈال دیا، محترمہ بینظیر بھٹو کو اس قدر ہراساں کیا کہ انہیں خود ساختہ جلا وطنی کرتے ہی بنی اور شاید یہ پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے اپنے سیاسی مخالف کو جلا وطنی پر مجبور کیا۔ عمران خان کے لئے اپوزیشن راہنمائوں کو جلا وطنی پر مجبور کر نا ممکنات میں نہیں ہے۔ دوسرا ماڈل جنرل مشرف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والا قومی مفاہمتی فارمولا تھا جس کو قانون کی شکل دے کر آرڈیننس کی صورت میں جاری بھی کیا گیا۔یہ ماڈل بھی عمران خان کے بس میں نہیں۔ تیسرا ماڈل بھی جنرل مشرف نے ہی متعارف کرایا جب انہوں نے بطور چیف ایگزیٹو صدر رفیق تارڑ کو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت شریف خاندان کے سزا یافتہ افراد کی معافی کی سمری بھیجی جو صدر نے فوراً منظور کر لی اور راتوں رات شریف خاندان سرور پیلس جدّہ پہنچ گیا۔یہی وہ ماڈل ہے جو اس وقت بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے کیونکہ صدر کے معافی کے اختیارات لا محدود ہیں اور انکے خلاف کسی عدالت سے بھی رجوع نہیں ہو سکتا۔لیکن یہ راستہ وزیر اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی سے ہو کر گزرتا ہے۔جنرل مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے اور ان کے لئے ڈیل دینا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کیا عمران خان کے لئے یہ اتنا ہی آسان ہے جو خود کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔صورتحال بھی مشرف دور کی نہیں ہے ۔جتنے مقدمات موجودہ حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف چل رہے ہیں وہ سارے سپریم کورٹ کی براہ راست نگرانی میں ہیں۔بھلے وہ منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس کے مقدمات ہوں یا پھر معلوم ذارئع سے زیادہ اثاثے رکھنے کے شریف خاندان کے مقدمات ہوں۔وزیر اعظم اور انکے حواری چاہتے ہوئے بھی ان معاملات میں اپوزیشن تو کیا اپنے ساتھیوں کے مقدمات میں بھی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ جو وزیر اعظم خود، اسکے وزراء اور پرنسپل سیکرٹری نیب کے سامنے پیشیاں بھگت رہے ہوں ، انکے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان نیب کی حراست میںہوںکسی اور کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ کسی مقتدر حلقے کی طرف سے بھی ڈیل کی باتیں نہیں ہو رہی ہیں۔اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو پھر وہی نواز شریف اور جنرل مشرف والے ماڈل کا وہ حصہ ہو گا جس میں عدالتوں میں شریف خاندان کے خلاف چلنے والے تمام مقدمات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا تھا اور پھر جلا وطنی سے واپس آنے کے بعد انہیں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرتے ہو ئے مقدمات سے نجات دلائی تھی۔لیکن یہ اس وقت ہی قابل عمل ہو گا جب موجودہ مقدمات میں شریف خاندان کو کسی صورت ریلیف ملتا ہے۔ کوئی بھی ماڈل عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے سیاسی موت ہو گا۔لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکومتی وزراء بیانات دیتے ہیں، دو تین روز ان بیانات پر خوب تبصرے اور تجزیے ہوتے ہیں۔ پھر ایک حکومتی جماعت کا اجلاس اسکے چیئرمین کی سربراہی میں ہوتا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے وزیر اطلاعات و نشریات ہمیں بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ تو کسی کو ڈھیل دی جائے گی اور نہ کوئی ڈیل ہو گی۔ کیا یہ ویڈیو پیغام ان وزراء کو بھی بھیجا گیا ہے جو کئی ارب ڈالر کے عوض اس ڈیل کا نہ صرف شوشہ چھوڑنے کے مرتکب ہیں بلکہ ابھی تک اپنے دعووں سے باز نہیں آ رہے۔کیا وزیر اعظم نے ان وزراء کو روکا ہے کہ وہ اس قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں جس کے بارے میں حکومت ایک واضح پالیسی رکھتی ہے وہ یہ کہ احتساب کے عمل پر کسی بھی قسم کی سودے بازی نہیں ہو گی ۔ہر مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔کیا یہ کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے مصیبت کے وقت پر حکمرانوں سے ڈیل کر چکے ہیں اس لئے عوام اس بات پر یقین کر لیں گے کہ دونوں جماعتیں پھر ڈیل کے چکر میں ہیں۔ کیا اس سے حکومتی جماعت کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ میرے خیال میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی ساکھ کے لئے مزید نقصان کا باعث ہو گا اور ان حلقوں کے نقطہء نظر کو تقویت ملے گی جو سیاستدانوں کو نااہل، خود غرض، لالچی، کرپٹ اور غیر محب وطن ثابت کرنے کے درپے رہتے ہیں۔عمران خان ڈیل یا ڈھیل دیں یا نواز شریف اور آصف زرداری لیں دونوں ہی اپنی سیاسی ساکھ سے کھلواڑ کریں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں نے معروضی حالات میں کچھ ایسے کمپرومائز کئے جو انکے گلے کا طوق بن چکے ہیں اور ان سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بھلے اسکو سیاسی انتقام سے تعبیر کریں ، اپنے آپ کو عدالتی نظام کے ذریعے کلئیر کرائیں اور اگر نہیں کرا سکتے تو اس بات کا کھلے دل سے اقرار کریں کہ ان سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نئی قیادت کو راستہ دیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم کوہلو کے بیل کی طرح اس دائرے میں گھومتے رہیں گے ، جہاں کبھی کسی حکومت سے نواز شریف ڈیل لے رہے ہونگے یا محترمہ بینظیر بھٹو کے عزیز کسی عمران خان سے معاملات طے کر رہے ہونگے۔