ابھی ہم اخبار اور کتاب ہی کا رونا رو رہے تھے کہ لوگوں نے پڑھنا چھوڑ دیا اور علم و معلومات سے دلچسپی نام کو بھی نہیں رہی۔ اس سینہ کوبی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے کہ ایک نئے انکشاف نے ہمیں انگشت بدانداں کر دیا، آسان زبان میں ہم حیرت زدہ رہ گئے جب ہم نے میڈیا کی کلاس میں پوچھا طلبا و طالبات سے کہ بھئی تم میں سے کتنے ہیں جو پابندی سے ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں اور روزانہ کتنی دیر دیکھتے ہیں؟ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان میں سے کوئی ایک طالب علم بھی ایسا نہیں نکلا جو ٹیلی ویژن کا رسیا ہو اور ذوق و شوق سے ٹیلی ویژن دیکھنے کا عادی ہو۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو اکا دکا ڈراموں میں دل چسپی رکھتی تھیں اور چند ایک طالب علم تھے جو کرکٹ میچ کے لئے ٹیلی ویژن سیٹ کے آگے بیٹھتے تھے۔ اس کا بنیادی سا مطلب یہ تھا کہ اخبار و کتاب کے بعد اب ٹیلی ویژن کا بھی صفایا ہو رہا ہے ان سبھوں نے یہ اعتراف تو کیا کہ ان کے گھروں میں ٹیلی ویژن آن رہتا ہے لیکن خاندان کے بزرگ دیکھتے ہیں۔ ان کے بھائی بہنوں کو بھی ٹیلی ویژن سے ذرا بھی رغبت نہیں۔ یہ سن کر لامحالہ ہمارا اگلا سوال تھا کہ پھر وہ اپنے فرصت کے اوقات میں کیا کرتے ہیں؟ سب کا واحد جواب تھا موبائل فون‘ اس استفسار کے جواب میں کہ وہ موبائل فون پر یوٹیوب‘ گوگل‘ فیس بک وغیرہ میں اپنا کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔ کسی کا جواب تھا آٹھ گھنٹے‘ کسی کا دس اور کسی کا چودہ گھنٹے۔ یقین مانیے ،یہ سن کے تو ہماری آنکھیں کھل گئیں، ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کوئی شبہ نہیں کہ موبائل ایک مفید چیز ہے اور اس کے سینکڑوں فائدے ہیں لیکن ہرچیز کے استعمال کی بھی کوئی نہ کوئی حد ہونی چاہیے۔ اب تو ہر گھر کا حال یہ ہے کہ سب موجود ہوتے ہیں لیکن ہر ایک اپنے اپنے موبائل میں مگن ہوتا ہے مہمان گھر میں آئیں تو رسمی سی خیریت خیر صلا کے بعد مہمان اپنے اور میزبان اپنے موبائل فون سے کھیلنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لوگ باگ دوران ڈرائیونگ موبائل پر باتوں میں لگے ہوتے ہیں۔ خاتون خانہ کچن میں کھانا تیار کرتے ہوئے کانوں سے موبائل لگائے ہوتی ہیں۔ پارکوں میں دیکھا ہے واک کرتے ہوئے عورتیں اور مرد موبائل کو اپنا رفیق بنانے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے، حد تو یہ کہ لوگ باتھ روم میں جاتے ہوئے بھی موبائل فون ساتھ لے جانا نہیں بھولتے۔ موبائل فون کیا ہوا ایک آسیب ہو گیا ہے جو ہمہ وقت کانوں پہ سوار رہتا ہے، ہم نے کلاس سے پوچھا کہ بھئی ٹیلی ویژن دیکھنے اور موبائل فون کے استعمال میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔ اب آج کل کے طلبہ تو کیا والدین سنجیدہ غور و فکر کے عادی نہیں۔ سو وہ کیا جواب دیتے جب ہم نے سوال کیا کہ آیا ایسا ہے یا نہیں کہ ٹیلی ویژن گھرانہ ساتھ بیٹھ کر دیکھتا ہے اور موبائل پہ گھرانے کا ہر فرد تنہا مصروف ہوتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور سینما وہ ذرائع ابلاغ ہیں جو افراد معاشرہ کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ فلم دیکھ کرڈرامہ دیکھ کر یا کوئی ٹاک شو دیکھ کر آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں فلم کی کہانی ڈرامے کی اداکاری ٹاک شو میں کسی کے خیالات کو موضوع بحث بناتے ہیں اور اسی طرح سماجیانے کے عمل کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس موبائل استعمال کرنے والے کو مصروف تو رکھتا ہے لیکن اپنے ماحول اور اپنے گردو پیش کے لوگوں سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ تعلق کے اس انقطاع سے خواہ وہ کتنا وقتی اور لمحاتی ہو، اس سے گھرانے کے افراد میں جذباتی، قلبی اور محسوساتی سطح پر فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ یعنی قربت ہے لیکن قربت ہی فاصلے اور دوریاں ہیں، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ وہ جذباتی اور دینی یگانگت جو گھرانے کو خاندان اور خاندانوں کو ایک معاشرہ بناتی ہے اسے دھچکا پہنچے گا اور یوں معاشرتی اکائی جو دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے ایک وقت آئے گا جب سارا شیرازہ ہی بکھر جائے گا۔ طلباء و طالبات نے یہ گفتگو توجہ سے سنی لیکن انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ انہیں کسی استفسار کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اس لئے یہ سمجھنا مجھے دشوار ہوا کہ وہ میری بات سمجھے بھی یا نہیں۔ یہ جو آج کے طلباء و طالبات کی ذہنی سطح کی بلندی یا پستی کا معاملہ ہے کہ وہ کسی سنجیدہ معاملے پر سوچنا جانتے ہی نہیں۔ کسی مسئلے کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہی نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ نہ کتاب پڑھتے ہیں نہ رسالہ اور اخبار ہی کا مطالعہ کرتے ہیں تو جب علم اور معلومات ان کے حافظے کا حصہ بنتے ہی نہیں تو ذہنی سطح محسوسات تک ہی محدود رہتی ہے۔ فکر و خیال سے رشتہ رابطہ استوار ہی نہیں ہوتا ۔یہ ایسی صورت حال ہے جس میں نہ مجھے تعلیم کا مستقبل روشن نظر آتا ہے اور نہ تہذیب و تمدن کا۔ ایک ایسی ثقافت جس میں افراد معاشرہ فرد کی سطح پر اکیلا جزیرہ بن جائے ۔ہر فرد ایک جزیرہ ہو اور دوسرے فرد سے فکری اور جذباتی سطح پہ کوئی آپسی بندھن ہی نہ ہو تو معاشرہ ایک اکائی کیسے بن جائے گا۔ اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم نے جن معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی اب تک آبیاری کی ہے وہ کس درجہ پھسپھسی ہیں کہ ایک الیکٹرونک آلہ یعنی موبائل ان ساری اقدار کو تاراج کر دیتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم وقت کے پہیے کو پیچھے نہیں لے جا سکتے۔ جو چیزیں نت نئی ایجاد ہو گئی ہیں وہ اپنے کمالات دکھائیں گی اور لوگ باگ بھی ان میں پوری طرح شریک رہیں گے، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے اپنے ہاں فیس بک پر، یوٹیوب پر اور اسی طرح نیٹ وغیرہ پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سنگا پور‘ چین‘ ملائشیا وغیرہ ان ہی ملکوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے عوام کو شتر بے مہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں ان آلات کو استعمال کریں اور اپنے ذہن و اخلاق اور اپنی تہذیب و ثقافت کو برباد کریں۔ ہمارے اپنے ملک کو بھی اصولاً ان ہی ملکوں میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ کہہ دینا کہ لوگ باشعور ہیں اور انہیں اپنے برے بھلے کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔ کسی طرح بھی درست نہیں جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ لوگ اپنے علم اور اخلاق کے ماتحت زندگی نہیں گزارتے وہ اپنی خواہشات اور نفسی و جذباتی تقاضوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ وہ اکثر ان ہی اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں جنہیں ذہنی اور اخلاقی سطح پر غلط سمجھتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ آدمی تضادات کا مجموعہ ہوتاہے جو کہتا ہے کہ وہ کرتا نہیں اور جو بھی صحیح یا غلط کرتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی لنگڑا لولا جواز بھی رکھتا ہے۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی میڈیا پالیسی وضع کریں جس کے ذریعے حدود متعین کی جائیں کہ افراد معاشرہ کو میڈیا کے استعمال میں کتنی آزادی ہونی چاہیے اور خود میڈیا کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی کی حدود کہاں تک ہیں۔ قوم اور افراد معاشرہ کو موبائل فون اور کمپیوٹر کے حوالے کر کے نچنت ہو جانا کوئی دانش مندی نہیں۔ وقت قریب ہے کہ ہم سیاسی اور معاشی استحکام کی فکر کے ساتھ اپنی تہذیبی اور ثقافتی آبیاری اور اس کی مضبوطی کی بات بھی فکر مندی کا مظاہرہ کریں۔ اس بارے میں بھی دانش وروں اور اساتذہ کرام اور خود میڈیا کے سنجیدہ لوگوں کی مدد سے غورو فکر کا اہتمام کریں۔ کیوں کہ جیسی صورت حال بن رہی ہے اس میں اندیشہ ہے کہ ایک ایسی نسل تیار ہو کر سامنے نہ آجائے جو سوچنے سمجھنے اور قوت فیصلہ ہی سے محروم ہو۔ تب کیا ہو گا؟یہ ابھی سے سوچنے کا کام ہے۔