گزشتہ روز مریم صفدر صاحبہ کا آئین ، ووٹ اور قانون کی حکمرانی کا نعرہ سنا تو دماغ میں گزشتہ کئی دہائیوں کے مناظر فلم کی طرح چلنے لگے۔1988 ء کی انتخابی مہم جس میں اخلاقیات سے لے کر قانون تک کی دھجیاں جس طرح اڑائی گئیں اور محترمہ بینظیر بھٹو اور انکی عمر رسیدہ والدہ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، پھر قومی اسمبلی میں شکست کے بعد جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر جس طرح عوام کو زبان اور علاقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بادل نخواستہ اسحٰق خان کو محترمہ بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم بننے کی دعوت دینا پڑی، وہ وزیر اعظم تو بن گئیں لیکن پنجاب حکومت جس کے سربراہ مریم صفدر کے والد محترم تھے ایک دن کے لئے بھی اس آئینی عہدے کا احترام تو کجا انکو وزیر اعظم تسلیم نہ کیا اور اٹھارہ ماہ کی حکومت کو ناکوں چنے چبواتے رہے۔دروغ بر گردن راوی، ایک اخبار کے مالک اور چیف ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی نے اس دور میں نواز شریف اور اسامہ بن لادن کی ملاقات کے حوالے سے انٹرویو بھی دے رکھا ہے جس میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لئے انہوں نے اسامہ بن لادن سے مالی مدد کی درخواست کی اور شاہ صاحب کے بقول ایک ملین ڈالر وصول بھی پائے جو کہ تحریک عدم اعتماد کی بجائے جیب کی نظر ہو گئے۔ چھانگا مانگا بھی اسی دور میں ہوا، اور بالآخر چھ جولائی 1990 ء کو صدر اسحٰق خان اور مسلم لیگ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو رخصت کر دیا گیا اور سیاسی انتقام کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس کی مثال پاکستان کی مارشلائی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ غلام حسین انڑ کی ٹانگ پر بم باندھ کر پیسے وصول کرنے کے مقدمے سے لیکر سنگا پور ائیر لائن کے طیارے کے اغواء تک پیپلز پارٹی، اسکی قائد اور اسکے خاندان کو خوب لتاڑا گیا۔ سنگا پور ائیر لائن طیارے کے اغواء کی سازش کے اصل کردار تو دنیا میں نہیں رہے جس میں ایک سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی بھی تھے لیکن اس کیس کی تحقیقات کے لئے جو ٹیم سنگاپور تحقیقات کے لئے گئی تھی ، پیپلز پارٹی کے تو نہیں لیکن ایک وقت میں ناہید خان اور اب آصف علی زرداری کے بہت ہی چہیتے اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اسکے بہت اہم رکن تھے۔ اس وقت بطور رپورٹر ایک اردو روزنامے کی طرف سے اس کیس کی رپورٹنگ کرتا رہا۔ ایف آئی اے ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اس ٹیم کے سربراہ کے ہمراہ رحمٰن ملک نے تحقیقات کی تفصیلات بتانے کے لئے پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ رحمٰن ملک صاحب بتا سکتے ہیں کہ مقدمہ اصل میں کیا تھا۔اسکے بعد قانون اور آئین کی حکمرانی کی کئی مثالیں میاں نوازشریف نے اپنے دور حکومت میں قائم کیں جس میں آصف زرادر ی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف مختلف مقدمات اور سب سے بڑھ کر انکے پنجاب میں نمائندے اور بہت بہادر جیالے سلمان تاثیر کے خلاف لاہور کے ایک تھانے میں جو کچھ کیا گیا اس نے جنرل ضیاء کے لاہور قلعے میں جیالوں پر تشدد کی یاد تازہ کر دی۔ سلمان تاثیر کا قصور یہ تھا کہ اس نے پنجاب حکومت کے خلاف ایک وائٹ پیپر تیار کیا اور اسکی تشہیر کے لئے پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔میڈیا کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ بھی کسی آمرانہ دور سے کم نہیں تھا۔ دوسرے دور میں 1997 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد تو میاں نواز شریف خود کو امیر المو منین کے عہدے سے کم پر فائز کرنے پرراضی ہی نہیں تھے اس کے لئے ایک آئینی ترمیم بھی تیار کرلی گئی تھی لیکن بوجوہ انکا یہ خواب پورا نہ ہو پایا۔ البتہ سیاسی مخالفین کے لئے یہ ایک سیاہ دور کا آغاز تھا۔سینیٹر سیف الرحمان کی سربراہی میں ایک احتساب سیل بنایا گیا، موجودہ نیب اسی کا چربہ ہے۔ جو بھی آجکل نیب کو برا بھلا کہہ رہے ہیں بشمول مسلم لیگ (ن) کے قائدین، انکو علم ہونا چاہئیے کہ جنرل مشرف کو یہ راہ دکھانے والے انکے قائد میاں نوازشریف تھے۔احتساب سیل کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اس میں سیف الرحمان اور میاں شہباز شریف کی وہ بدنام زمانہ کال بھی شامل ہے جو انہوں نے جسٹس قیوم کو کی تھی جس میں ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ جلد از جلدمحترمہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے مقدمے میں میاں نواز شیرف کی مرضی کی سزا دیں۔سیاسی مخالفین کے لئے اس قدر خوف کی فضا پیدا کی گئی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ بی بی کو ملک سے بھگا کر میاں نواز شریف اعلیٰ عدلیہ کے پیچھے پڑ گئے اور آئین و قانون کے عین مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا۔سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کے سلسلہ میں سرکاری خبر رساں ایجنسی کی طرف سے ڈیوٹی پر مامور تھا کہ ان آنکھوں نے مسلم لیگ (ن) کے متوالوں کو سپریم کورٹ کا مرکزی گیٹ پھلانگ کر داخل ہوتے دیکھا اور ان لاٹھیوں اور اسلحے سے مسلح قانون کی عملداری کے داعی پیروکاروں کو کورٹ روم نمبر ون پر حملہ آور ہوتے بھی دیکھا جب معزز جج صاحبان کو کورٹ روم چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ چلئے مان لیتے ہیں جنرل مشرف نے بڑی زیادتی کی آپ کے خلاف مقدمات بنائے آپ کو زبردستی ملک بدر کیا۔ مان لیتے ہیں آپ نے تاریخ سے سیکھا اور میثاق جمہوریت کی شکل میں اپنے گناہوں کا ازالہ کرنے کا وعدہ کیا لیکن 2008 ء میںپیپلز پارٹی کی حکومت کو کتنے دن سکون کا سانس لینے دیا، سڑکوں پر گھسیٹنے سے لے کر پیٹ پھاڑنے تک کے دعوے کئے۔کچھ یاد ہے میمو گیٹ میں آپ کہاں کھڑے تھے، کیاقانون کی حکمرانی، ووٹ کی عزت اور آئین کی بالا دستی کا تحفظ کر رہے تھے؟ 2013 ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں 12 اکتوبر1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے آپ کا ہاتھ روکا تھا۔آپ کے آئین اور قانون کی حکمرانی اور ووٹ کی عزت کا تصور دنیا سے نرالا ہے۔ ایسی باتیں کر کے آپ خود کو دھوکہ نہ دیں، عوام اب اس دھوکے میں آنے سے رہے۔