امریکہ اور نیٹو کی فوجیں یوکرائن کی حمایت میں یورپ کے مختلف ملکوں میں جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ ایک طرف کھڑی ہیں۔ دوسری جانب روس کے تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار فوجی یوکرائن کے 2014ء تک قبضے میں رہنے والے علاقے کریمیا اور سرحد پر موجود ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور مغربی میڈیا اور یوکرائن کے سفارت کار 16 فروری بروز بدھ تک روس کی جانب سے روسی حملے کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سمیت تمام یورپین ممالک روس کو یوکرائن پر حملے سے باز رکھنے کی تنبیہ کررہے ہیں۔ یوکرائن سے امریکہ اور دیگر ممالک کے باشندے تیزی سے نکل رہے ہیں۔ اکثر ممالک نے اپنی پروازیں معطل کردی ہیں۔ تمام تر انٹیلیجنس ایجنسیاں خبردار کررہی ہیں کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اسی لئے ایک طرف سفارتی کوششیں تیز تر ہوتی جارہی ہیںتودوسری طرف جنگ کی تیاریاں۔ روس اور یوکرائن کے درمیان تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرگیا جب حالیہ مہینوں میں یوکرائن کو نیٹو کا فل رکن بنانے کی گارنٹی دی گئی۔ روس نہیں چاہتا کہ اس کی سرحد سے متصل یوکرائن نیٹو کا رکن بنے اور نیٹو افواج یوکرائن میں گھس آئیں۔ روس اور یوکرائن کے درمیان حالات 2004 ء کے بعد سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جب یوکرائن میں 2004ء کے انتخابات میں روسی حمایت یافتہ صدارتی امیدوار وکٹر یناکووچ کو امریکہ اور یورپ نے اپوزیشن کی حمایت سے 2014ء میں ہٹادیا تھا۔ کووچ کے جانے کے بعد یورپ نواز پرشنیکو کو صدر بنا دیا گیا۔ جس کے بعد یوکرائن میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ روس کا ایک علاقہ کریمیا سوویت یونین سے علیحدگی کے وقت یوکرائن کے پاس چلا گیا تھا۔ وہاں اکثریت میں روسی باشندے آباد تھے۔ روس نے کریمیا کے علاقے میں اپنی فوجیں بھیج کر اس علاقے کو 2014ء میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد ریفرنڈم ہوا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں کریمیا کے لوگوں نے روس کے ساتھ رہنے کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ جس سے دونوں ملکوں میں تنائو بڑھتا ہی رہا۔ اب اس میں شدت اس لئے آئی کہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ یوکرائن کی کوشش ہے کہ وہ نیٹو اتحاد کا حصہ بن جائے۔ روس بھی نیٹو اتحاد کا حصہ بننے کے بعد یوکرائن کی چالاکی کو بھانپ چکا ہے۔ روس جانتا ہے یوکرائن نیٹو کا اتحادی ملک بن کر کریمیا واپس لینے کے لئے روس سے جنگ کرے گا۔ ساری نیٹو اس کی حمایت میں اس کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ اکیلے روس کو یو کرائن سے ہی نہیں بلکہ امریکہ سمیت تمام یورپ سے جنگ کرنا ہوگی۔ دنیا تیسری جنگ عظیم کی تباہی کا شکار ہوگی۔سب سے زیادہ یورپ اور روس متاثر ہونگے۔ اس جنگ میں جب روس اور یورپ شدید معاشی ، بحران اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر تباہی کی طرف جائیں گے تو سمندر پار بیٹھے امریکہ کو ایک بار پھر موقع مل جائے گا کہ وہ دنیا میں اپنا وہ کھویا ہوا تسلط اور دبدبہ قائم کر سکے، جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد قائم تھا۔ اصل مسئلہ چودھراہٹ کا ہے، چودھراٹ خطرے میں ہے۔ چین اور روس نے امریکہ کی جو ناک رگڑی ہے اس میں امریکہ کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے ایک جنگ کی ضرورت ہے۔ روس یورپ سے جرمنی ، فرانس، یوکرائن کے ساتھ چاروں فریقوں کے 2014ء اور 2015ء میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدوں پر عمل درآمد چاہتا ہے۔ ماضی میں زبانی کی گئی یقین دہانیوں جن کے مطابق نیٹو اپنا دائرہ کار مشرقی یورپ کی طرف نہیں بڑھائے گی، اس یقین دھانی کا تحریری معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ نیٹو اس پر کوئی بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ یوکرائن مشرقی یورپ کیممالک فرانس جرمنی اور یورپ کے کئی ملکوں سے بڑا ہے۔ جس کی آبادی چالیس ملین سے زیادہ ہے۔ جہاں اس وقت جنگی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ سویلین افراد کو جنگی ٹریننگ دی جارہی ہے۔ فوجی گشت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ۔گزشتہ اتوار کے روز برطانیہ میں یوکرائن کے سفیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے تو یوکرائن نیٹو کی رکنیت وقتی طور پر چھوڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں 20 سال جنگ کے تجربے کے بعد یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ جنگ میں تباہی ہے۔ یورپ میں لڑی جانے والی یہ جنگ اپنے گھر بار در و دیوار کو آگ لگانے کے مترادف ہو گی۔ امریکی اور یورپین معیشت پہلے ہی کورونا زدہ ہے۔ ان حالات میں جنگ سے بچنے کیلئے تدبیریں ہی بہترین حکمت عملی ہوںگی۔ روس کو یورپین اور امریکی کمزوریوں کا بخوبی علم ہے اسی لئے وہ دبائو بڑھا رہا ہے۔ اگر محدود جنگ بھی شروع ہوگئی تو جانی و مالی بڑا نقصان ہوگا۔ روس کے ساتھ چین اور سابق سوویت یونین کی ریاستیں کھڑی ہیں۔ دونوں طرف توازن قائم ہوچکا ہے۔ چین روس مل کر امریکہ اور نیٹو کے سامنے ہیں۔ اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ روس کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں بالکل غلط تاثر جائے گا۔